یہ فیصلے کی گھڑی ہے
لاہور کے علاقے گجرپور ہ میں موٹروے کے قریب ایک خاتون کو بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اس سے چند روز قبل کراچی میں ایک پانچ سالہ معصوم بچی کو اغوا کرکے درندگی کا نشانہ بنایا گیا ، پھر درندوںنے اس ننھی بچی کو قتل کرکے لاش کچر ے پر پھینک دی ۔ درندگی کے ان پے درپے واقعات سے پوری قوم پریشان ومضطرب ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے لاہور کے شرمناک واقعہ کی تفتیش اور مستقبل میں ایسے واقعات کے انسداد کیلئے پانچ رُکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے ۔ 2افراد نے مبینہ طور پر مدد کے انتظار میں سڑک کے کنارے کھڑی گاڑی میں سوار خاتون کو پکڑ کر قریبی کھیتوں میں ان کے بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا ۔ اس معاملے کا مقدمہ درج ہونے کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ معامہ زیر بحث رہا اور پولیس کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا تا رہا ۔ واقعے سے ایک روز قبل پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس کا عہدہ سنبھالنے والے انعام غنی کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے بعد ہی ہم نے موٹرو ے سانحہ کے دونوں ملزمان کو ٹریس کرلیا ہے ۔ یہ دونوں ملزم عادی مجرم ہیں ۔ ایک ملزم 14دن قبل ضما نت پر رہا ہواجبکہ دوسرا ملزم اشتہاری اور مفرور ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ایک پریس کانفرنس میں دونوں ملزمان عابد علی اور وقارالحسن کی گرفتاری میں مدددینے والوں کیلئے انعامی رقم کا اعلان بھی کیا ہے ۔ معلومات کے مطابق ملزم عابد علی 2013ء سے مفرور ہے اس کے خلاف کم از کم 6مختلف مقدمات ہیں جن میں ایک مقدمہ اجتماعی زیادتی کا بھی ہے ۔ ملزم عابد علی کے خلاف ضلع بہاولنگر کی تحصیل فورٹ آباد تھانے میں 19جون 2013ء کو محمد مشکور نامی شخص کی جانب سے عابدعلی اور دیگر چار افراد کے خلاف اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا ۔ مدعی کا کہنا تھا کہ وہ مورخہ15اور 16جون کی درمیانی شب اپنے گھر کے صحن میں سوئے ہوئے تھے کہ پانچ آدمی جن میں سے ایک نے چہرے پر رومال ڈال کر اپنا منہ چھپا یا ہوا تھا گھر میں داخل ہوتے ہی مجھے قابو کرلیا ، انہوں نے میری بیوی اور بیٹی کو رسیوں سے باندھ کر انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا ۔ بعدا زاں میرے گھر سے 8ہزار روپے مالیت کا موبائل فون اور دو ہزار روپے نقد لے کر فرار ہوگئے تھے ۔ بہاولنگر پولیس کے مطابق ملزم عابد علی فورٹ آباد کے چک HL/57کا رہائشی ہے ۔ بہاولنگر پولیس کو 2013ء سے ماں بیٹی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے کیس میں مطلوب ہے ۔ دوسرے ملزم کے حوالے سے معلومات کے مطابق اس کا تعلق شیخوپورہ سے ہے ۔ ملزم وقار الحسن شیخوپورہ کے حلقہ ستار خان کا رہائشی ہے۔ شیخوپورہ پولیس کے مطابق ملزم وقار الحسن دو ہفتے قبل چوری کے ایک مقدمہ میں ضمانت سے رہا ہوا ہے اس وقت ملزم وقار الحسن پر شیخوپورہ میں چور ی کے دو مقدمات کا ٹرائل بھی جاری ہے ۔ دوسری جانب پولیس کے اندرونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ لاہور موٹروے پر قانون کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا اہم سبب مقامی پولیس کا جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ تعاون کا رویہ بنا ۔ اگر پولیس یکم جولائی کی رات تقریبا ً ساڑھے دس بجے سگتیاں گائوں میں قائم کلینک پر کام کرنے والی نرس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے مرتکب چار اوباشوں کا ساتھ نہ دیتی تو اسی تھانے کے علاقے میں دوسرا واقعہ پیش نہیں آسکتا تھا ۔ پولیس مظلوم اور غریب ایک مزدور کی بیٹی کو انصاف دینے میں مقامی پی ٹی آئی ڈیرے دار رہنما’’ ساکن لکھوڈ ‘‘ کے حکم پر رکاوٹیں پیدا کرنا شروع کردیں ۔ ذرائع کے مطابق نرس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والے چار ملزمان میں سے ایک ملزم فیضان کی گرفتاری بھی پولیس نے پی ٹی آئی کے اسی مقامی رہنما کے ڈیرے سے کی تھی ۔ ذرائع کے مطابق یکم جولائی اور دو جولائی کی درمیانی شب پیش آنے والے اس سفاکانہ واقعہ کے بعد پولیس مسلسل معاملہ لٹکاتی رہی تاکہ پی ٹی آئی رہنما معاملے کو عدالت سے بالا بالا طے کرانے میں کامیاب ہوسکے ۔ اسی سبب اس سفاکانہ واقعہ میں ملوث ملزمان اور مظلوم نرس کا DNAٹیسٹ بھی التوا میں رکھا گیا اور سات ہفتے بعد 22اگست کو کرایا گیا ۔ ذرائع کے مطابق کردل گائوں ، سگتیاں گائوں ، عینو بھٹی جرائم کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں اس کے قریب ہی لکھوڈیرہ کا علاقہ ہے۔ (جاری ہے)
جو بدمعاشوں کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے تاہم تقریبا ً تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس کے علاقے کے جرائم پیشہ اور بدمعاش افراد کو اپنے مقاصدکیلئے استعمال کرتی رہی ہیں ۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ اب بھی لکھو ڈیر ہ کا ایک بڑا سیاسی نام اس معاملے کی ملزمان کی پشت پناہی کیلئے کھڑا ہے کہ چار پانچ روز قبل ثنا نامی خاتون کے ساتھ رات 2بجے موٹر وے پر یہ ایک المناک واقعہ پیش آیا ۔ اس سے محض تقریباً 12گھنٹے قبل اسی گجر پور ہ تھانے کی گجر پورہ پولیس چوکی کے علاقے میں ہی میاں عبدالرحمان نامی ایک شخص کو دن دیہاڑے قتل کردیا گیا تھا ۔ ثنانامی خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ بھی موٹروے سے ایک جانب اسی جنگل میں ہوا ۔ میاں عبدالرحمان کا قتل 8ستمبر موٹرو ے کے ساتھ والے اسی جنگل یا ویرانے میں ہو ا،لیکن پولیس نے اس کے باوجود علاقے کی اراضی نگرانی کا اہتمام نہ کیا ۔ یکم جولائی کو سولہ سترہ سالہ نرس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی لرزہ خیز واردات اسی موٹروے سے آدھے کلو میٹر کے فاصلے پر ہوئی اور یہی پولی چوکی لگتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اعلیٰ ترین سطح پر پولیس میں سیاست کا دخل سپریم کورٹ کے بھی علم میں ہے ، جبکہ نچلی سطح پر سیاسی اثر ورسوخ سے پولیس نے آج تک آزاد نہ ہو سکنے کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر ، قانون اور عدالت سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ عام طورپر سیاسی جماعتیں ایسے عناصر کی سرپرستی کررہی ہوتی ہیں ۔
مقامی ذرائع کے مطابق موٹروے کا ایک ایسے علاقے سے گزرنا جہاں دریا ئے راوی کا روایتی بیلا وار دونوں اطراف طویل جنگل پایا جاتا ہے ۔ خصوصی سیکورٹی انتظامات کے بغیر موٹر وے کو کھول دیا جانا خالصتاً حکومتی عدم دلچسپی اور پولیس حکام کی غفلت کا ثبوت ہے کہ موٹروے پر ٹیکس لینے کا سلسلہ تو شروع کردیاگیا لیکن شہریوں کی عزت جان ومال کا تحفظ کرنے کے بجائے انہیں مقامی جرائم پیشہ سیاست دانوں اور ان کے لاڈلوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ۔ یوں بیلے اور جنگل کو جرائم کیلئے استعمال کرنے والے جرائم پیشہ عناصر کیلئے موٹر وے کی صورت میں ایک نئی سہولت پید اہوگئی ۔
یہ معمولی واقعہ نہیں ہے یادرکھیں ! ظلم اور معاشرتی اقدار میں پستی کا مقابلہ کرنا بحیثیت قوم ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ بلاشبہ شہریوں کی جان ومال کی حفاظت ریاست کی اوّلین ذمہ داری ہے ، لیکن اگر کسی ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو تب بھی اس کے شہری کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کیلئے خود احتیاط کے تقاضوں سے غفلت نہیں برتتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا قانون اتنا طاقتور ضرور ہے کہ وہ مجرم کو فوراً لٹکا سکتا ہے ، ہماری بے احتیاطی کی وجہ سے پیش آنے والے حادثے کو روک نہیں سکتا ۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں تو قانون کی عملداری کا وجود ہی نہیں ہے تو ایسے میں ہمیں اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت کیلئے خود احتیاطی کے اصولوں پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ اس قسم کے دلخراش واقعات آئے روز رونما ہوتے ہیں اس لیے خاص کر خواتین کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔ اس واقعے کے بعد پوری قوم کی ایک ہی آواز ہے کہ ملوث افراد کو پکڑ کر سرعام سزائے موت دی جائے ۔ سوشل میڈیا کی تمام سائنس پر یہی مطالبہ ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے ، جبکہ خالق کائنات نے بھی اپنی آخری کتاب میں معاشرے کے ایسے ناسور وں کو سرعام نشان عبرت بنانے کاحکم دیا ہے۔ قصور میںدرندگی کے بعد قتل ہونے والی زینب نامی معصوم بچی کا قاتل جب پکڑا گیا تو اس وقت بھی زینب کے والد سمیت ہر ایک کا یہی مطالبہ تھا کہ مجرم کو سب کے سامنے سزائے موت دی جائے ، مگر مغربی نقالی میں پہلے تو ہمارے ہاں سزائے موت پر بھی پابندی تھی پھر دہشت گردوں کے حملوں سے مجبور ہوکر ہمیں یہ سزا بحال کرنا پڑی لیکن مجرم کو جیل کی کال کوٹھڑی کے اندر رات کی تاریکی میں پھانسی دی جاتی ہے اس سے سزائوں کے نفاذ کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے ۔ کسی مجرم کو سزادینے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ تمام لوگ اس سے عبرت حاصل کریں اور آئندہ کوئی اس جیسے جرم کا ارتکاب نہ کرے ۔ سعودی عرب میں اسی اصول پر عمل کرکے نماز جمعہ کے بعد تمام لوگوں کے سامنے قاتل کی گردن ماری جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے معاشرے میں قتل جیسے جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ۔ موجودہ حکومت سے مطالبہ کرنا ہی وقت کا ضیا ع ہے ۔اس سے قبل ساہیوال میں بھی نہایت اندوہناک سانحہ پیش آیا تھا ۔ جب پولیس اہلکاروں نے بچوں کے سامنے ان کے ماں با پ کو گولی مار کر شہید کردیا تھا ۔ اس وقت وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ قطر سے واپسی پر میں ان بچوں کو ضرور انصاف دلائوں گا ، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ اب بھی دو چار دن کے بعد گرد بیٹھ جائے گی اور عوام اس واقعے کو بھی بھول جائیں گے اور پھر کوئی اور سانحہ رونما ہوگا تاہم اب ریاست کو فیصلہ کرنا ہے کہ معاشرے میں پھیلتے بے راہ روی اور جنسی ہولناکی کے اس طوفان کے آگے بند باندھنا ہے کہ ہاتھ باندھ کر تماشا دیکھنا ہے۔