صدارتی نظام کی ضرورت کیوں
بات ہورہی ہے صدارتی اور پارلیمانی طرز حکومت کی ، 1956،62ء اور73ء میں تین آئین آزمائے گئے، 62ء کے آئین میں صدارتی نظام جبکہ 56اور 73 کے آئین میں پارلیمانی نظام تجویز ہوا،کہ جمہوری تقاضا یہی تھا۔ 73ء کے آئین میں مقننہ دو ایوانوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل تھی۔ تینوں آئین تھوڑی مدت کے بعد ہی معطل کیے جاتے رہے۔73 کا آئین پہلے ضیاء الحق، 1977ء ہواور پھر مشرف نے 1999ء میں معطل کر کے ’پی سی او‘ (Provisional Constitutional Order)نافذ کیا،چاروں مارشل لاؤں میں یہ بات مشترک ہے کہ مارشل لا ء ایڈ منسٹریٹرز خود ساختہ صدربنے، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے ،’نام نہاد عوامی ریفرینڈم‘ کا سہارالیا،مگر یحییٰ خان نے اس کی ضرورت ہی محسوس نہ کی، ایوب خان جب صدر سکندر مرزا کے حکم پر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے تو انہوں نے62ء میں صدارتی طرز کا آئین دیا اور اس کے تحت بلواسطہ صدارتی انتخاب کے ذریعے محترمہ فاطمہ جناح کو ہرا کر صدربنے،1985 کی منتخب اسمبلی کو خود جنرل ضیاء نے29مئی88ء میں برطرف کر دیا،تا ہم انہوں نے اس غیر جماعتی اسمبلی سے اپنے تمام غیر آئینی اقدام کو آئینی تحفظ دے لیا،’طیارہ سازش کیس‘ میں عمر قید کی سزا کے بعد میاں نواز شریف ، سعودیہ کی ایما پر،پرویز مشرف سے دس سال کیلیے ڈیل کر کے سعودیہ چلے گئے، اس جلا وطنی میں 14مئی2006کو مسلم لیگ نون اور پی پی پی میں میثاقِ جمہوریت طے ہوا 2007ء میں نواز شریف اور بے نظیر پرویز مشرف سے NROلے کر واپس آئے۔بے نظیرکی شہادت کے بعد ہونے والا الیکشن جیت کر پی پی پی نے حکومت بنائی، میثاق جمہوریت کے تحت نون لیگ نے ، مدت پوری کرنے میں اس کی معاونت کی، جواب میں 2013میں نون لیگ کو ’باری‘ ملی تو پی پی پی نے اسے سہولت فراہم کی۔یوں بظاہر 2008کے بعد دو اسمبلیوں نے آئینی مدت پوری کی لیکن ان دونوں کے طرز حکمرانی کو’مک مکا‘ کا نام دیا گیا، جس کی عملی صورت یوں سامنے آئی کہ دونوں نے ایک دوسرے کی کرپشن سے چشم پوشی کی جس سے عوام خسارے میں رہے،اور حکمرانوں نے وسائل کوخوب لوٹا، ملک قرضوں کی دلدل میں دھکیل دیا گیاا ورشریک اقتدارہر شخص کے اثاثہ جات اس کی آمدن سے زیادہ بڑھے۔ ملک کی 70سالہ تاریخ میںتقریباًنصف آمریت اور اتنا عرصہ ہی پارلیمانی دور رہا۔تمام ادوار میں پارلیمان نے شریک اقتدارافراد کے مفادات کے لیے ہی آئین سازی کی۔حکمران عوامی فلاح یا عوام کے مستقبل کی بجائے اپنے مستقبل اورآئندہ الیکشن تک محدود رہے۔ ملک میں دو پارٹی سسٹم مستحکم ہوا، پی پی پی جمہوری سوچ رکھنے والی پارٹی تھی مگرجس طرح زرداری نے مبینہ وصیت کے ذریعے پارٹی پر تسلط قائم کیا اور کسی نظریاتی کارکن نے چوں چرا نہ کی، اس نے پارٹی کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور اسے قومی سطح سے علاقائی پارٹی میں بدل دیا،مسلم لیگ ’ن‘ کی طرز حکمرانی آمرانہ سے بڑھ کر بادشاہانہ رہی، جس سے عوام اس پارلیمانی نظام سے بے زار ہو ئے ، ملک میں صدارتی اور پارلیمانی نظام چار چار بار دوہرایا جا چکا ، یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ باوردی صدور آئینی طور پر،کسی صدارتی نظام کے تحت منتخب نہیں ہوئے، البتہ بنیادی جمہوریت انہی ادوار میں مضبوط ہوئی جس سے جمہوری حکمران خائف رہے، اب جس صدارتی نظام کی بات ہو رہی ہے اس سے مراد ہے کہ صدر براہِ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہو۔ نظام بذاتِ خود کوئی بھی بُرا نہیں ہوتا،اسے چلانے والوں کی نیت اور اہلیت اسے اچھا یا بُرا بناتی ہے، ہمارے ہر دو طرز کے حکمران ملک و قوم سے اخلاص کی بجائے ذاتیات کے اسیررہے۔عوام میں پارلیمان سے بے زاری کی اصل وجہ یہی ہے،کہ ہر دو پارٹیوں نے عوام کو محرومیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ نظام بدلنے کا آئینی راستا خاصا کٹھن ہے، موجودہ اسمبلیاں تحلیل کر کے ، قانون ساز اسمبلی منتخب ہو اور آنے والی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے، آئین سازی کرے، بظاہر اسمبلیوں کی تحلیل کا کوئی امکان نہیں،تو سوال یہ ہے کہ کیا عدالت ریفرینڈم کا حکم دے سکتی ہے؟ 18ویں ترمیم میں ریفرنڈم کو پارلیمان سے مشروط کردیا گیا ہے، سوال یہ بھی ہے کہ جن کا مفاد نام نہادپارلیمان سے وابستہ ہے وہ آسانی سے اسے بدلنے کی اجازت دیں گے؟ ہاں البتہ آرمی چیف منصب کی توسیع یا FATFسے متعلق بل کی منظوری جس تعویزیا فارمولے کے ذریعے لی گئی اس نے اپنا اثر دکھادیا توپھر سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔۔!