مقبوضہ کشمیر: پابندیاں سخت، علی گیلانی پریس کانفرنس نہ کرسکے
سرینگر (اے این این+ بی بی سی+این این آئی +آن لائن) مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم کا45 واں روز، وادی میں دکانیں، کاروبار، تعلیمی ادارے سنسان پڑے ہیں، گھروں میں قید کشمیری ضروریات زندگی کو ترس گئے۔ پولیس نے علی گیلانی کو پریس کانفرنس سے روکدیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیریوں کی زندگی بدتر ہونے لگی۔ گھروں میں محصور لوگ کھانے پینے کی اشیا کو ترس گئے۔ دکانیں، کاروبار، تعلیمی ادارے تاحال بند ہیں، چپے چپے پر بھارتی فوج تعینات ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق صرف شوپیاں کے علاقے سے 2 ہزار کے قریب نوجوانوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ کرفیو اور لاک ڈاؤن کے باعث ادویات اور خوراک ختم ہو گئی ہے۔ وادی میں حریت قائدین اور سیاسی رہنما بدستور نظر بند ہیں۔ کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق قابض بھارتی حکومت نے بی جے پی کے سابق رہنما یشونت سنہا، ریٹائرڈ ائر مارشل، کپل کاک اور سماجی کارکن سشوبھا بھاوے کو سرینگر میں داخل ہونے کی اجازت نہیںدی اور انہیں ہوائی اڈے سے ہی واپس دہلی بھیج دیا۔ مقبوضہ وادی میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں مگر اسکے باوجود بھارتی سرکاری موبائل کمپنی‘ بھارت سخچارنگم لمٹیڈ (بی ایس این ایل) نے علاقے میں اپنے صارفین کے نام براڈ بینڈ انٹرنیٹ اور موبائل فون بھی ارسال کر دیئے ہیں۔ ادھر سرینگر میں پولیس نے حریت کانفرنس کے نظر بند رہنما سید علی گیلانی کو بدھ کے روز پریس کانفرنس سے روک دیا ہے۔گذشتہ ماہ چار اگست کو وادی میں ذرائع مواصلات کی بندشوں اور لاک ڈاؤن کے بعد سے یہ پہلا موقع تھا کہ حریت کانفرنس کی جانب سے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔بی بی سی کے صحافی ریاض مسرور بتاتے ہیں کہ انھیں اور دیگر صحافیوں کو اس حوالے سے دعوت نامے خطوط کے ذریعے بھیجے گئے کیونکہ ’خطوط ہی مواصلات کا واحد ذریعہ ہے۔‘حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی کو 4 اگست کو ان کی رہائش گاہ میں نظر بند کر دیا گیا تھا جو سری نگر کے نواہی علاقے حیدر پورہ میں واقع ہے۔ریاض بتاتے ہیں کہ ’جب ہم وہاں پہنچے تو پولیس نے ہمیں بتایا کہ ہمارے یہاں جمع ہونے سے دفعہ 144 کی خلاف ورزی ہو جائے گی اس لیے آپ یہاں سے نکل جائیں۔‘نامہ نگار کے مطابق اس کے بعد صحافیوں اور پولیس کے درمیان کافی دیر مباحثہ بھی ہوا اور پھر انھوں نے سینیئر پولیس اہلکاروں کو وہاں بلا لیا۔ان کے مطابق سینیئر پولیس اہلکاروں نے صحافیوں کو بتایا کہ ’کیونکہ انھیں اس پریس کانفرنس کے بارے میں پہلے سے اطلاع نہیں ہے، اس لیے اس پریس کانفرنس کو منعقد کرنے کے لیے ضلع مجسٹریٹ کی اجازت ضروری ہے۔‘ریاض کے مطابق وہاں اس حوالے سے تقریباً ایک گھنٹے تک تعطل بنا رہا، تاہم سعید علی گیلانی کی رہائش گاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی اور بعد میں صحافی وہاں سے نکل گئے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے پردہ اٹھانے والے صحافیوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کردی گئی ہیں۔ مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے لیے ہر دن مشکل بنادیا گیا ہے، انہیں کام سے روکا جارہا ہے۔ ایک کشمیری صحافی شاہد خان نے بتایا کہ سری نگر میں 7 ستمبر کو محرم کے جلوس کے دوران پولیس نے ان سمیت چھ صحافیوں پر تشدد کیا تھا جس سے ان کے سر میں فریکچر ہوگیا۔ حالیہ دنوں میں مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں اور تشدد کرنے سے متعلق متعدد کیسز سامنے آئے ہیں۔