جمعرات ‘ 19 ؍ محرم الحرام 1441ھ ‘ 19ستمبر 2019 ء
غیر ملکیوں کے سانس لینے پر بھی ٹیکس لگایا جائے۔ کویتی خاتون رکن پارلیمنٹ
وطن سے دور دیار غیر میں نامساعد حالات میں سخت ترین موسمی نامہربانیوں کو برداشت کرتے ہوئے تارکین وطن جس طرح ان اجڈ ممالک کو ترقی دے کر اشک بریں بناتے ہیں۔ اس کا احساس بھی شاید اس ظالم ممبر پارلیمنٹ کو نہیں۔ بدقسمتی سے یہ بیان کسی ظالم جابر شخص نے نہیں جس کویتی رکن پارلیمنٹ نے دیا ہے وہ ایک خاتون ہیں۔ مگر ان کے اندر کا نسلی برتری کا فلسفہ مردوں سے بھی زیادہ ہے۔ ان غریب الوطن مسافروں پر کیا گزری ہو گی جو شدید گرمی میں وہاں بلند و بالا عمارات اور جدید وسیع سڑکیں بناتے ہیں۔ کفیل کی جھڑکیاں کھاتے ہیں۔ قیام و طعام کی اذیتیں سہتے ہیں زبان پر اف تک نہیں لاتے۔ کویت کے حسین جدید چہرے پر جو سرخی غازہ بن کر چمکتی ہے وہ انہی غریب الوطن غیر ملکی مزدوروں محنت کشوں کے خون کی لالی ہے۔ غیر ملکی تارکین وطن ’’گھٹ کے مر جائوں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے‘‘ بھی نہ کہہ سکتے۔ ویسے یہ انوکھے مشورے ہمارے حکمرانوں کے لیے بھی مشعل راہ ہیں۔ انہیں بھی غریب عوام پر ہوا اور سورج کی روشنی سے استفادہ کرنے پر ٹیکس عائد کرنا چاہئے۔ ویسے بھی اس وقت صرف یہی دو چیزیں رہ گئی ہیں جن پر ہمارے ہاں ٹیکس نہیں ورنہ باقی سب چیزوں پر ٹیکس لگ چکا ہے۔ یقین نہ آئے تو حساب لگا کر دیکھ لیں۔
٭٭٭٭٭
قائد اعظم ٹرافی کا کمال، فنڈ کروڑوں کا اور کھانے میں دال
یہ تو میڈیا کا کمال ہے کہ اس نے یہ بے مثال کمالات براہ راست عوام کو دکھا کر اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ یہ جو بے چارے کھلاڑی قائد اعظم ٹرافی کھیلنے کے لیے اِدھر اُدھر سے آئے ہیں یہ سب لینڈ لارڈ یا سرمایہ دار نہیں۔ اس ایونٹ کے لیے حکومت نے دروغ برگردن راوی ایک ارب روپے کا فنڈ دیا ہے۔ کیا اس میں کھانے پینے کا خرچ شامل نہیں ہے۔ نہایت گندے ماحول میں پانی جیسی پتلی دال اور برتن دیکھ کر تو یوں لگا جیسے کسی جیل کے قیدیوں کے لیے کھانا تیار کیا گیا ہے۔ کھلاڑی سخت ترین موسموں اور حالات کے باوجود اگر سامنے آتے ہیں تو ان کی رہنمائی کی ضرورت حکومت اور محکمہ سپورٹس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر یہ دونوں انہیں جی بھر کے ذلیل کرتے ہیں تاکہ وہ کھیل سے توبہ کر لیں۔مگر اپنے شوق کی وجہ سے یہ کھلاڑی تمام حالات کا مقابلہ کر کے پہلے سکول پھر کالج کے بعد صوبے میں نمایاں ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے پاس جوتے کپڑے اور کھیلنے کا سامان خریدنے کے پیسے تک نہیں ہوتے۔ حکومت اور محکمہ سپورٹس ذرا اس طرف بھی توجہ دے۔ ڈیپارٹمنٹل ٹیموں پر پابندی کے بعد تو ان علاقائی سطح پر ابھرنے والے کھلاڑیوں کا کوئی سرپرست ہی نہیں رہا۔ یوں ٹیلنٹ ضائع ہونا شروع ہو گا اور پھر روتے رہیں گے کہ اچھے کھلاڑی نہیں مل رہے۔ یہ مگرمچھ کے آنسو بہانے سے بہتر ہے کہ حکومت اور محکمہ کھلاڑیوں پر دست شفقت رکھے اور ان کی سرپرستی کرے نہ کہ ان کی آس توڑنے کے اقدامات کریں۔
٭٭٭٭
ڈینگی پھر بے قابو ہو گیا
موسم بدلتے ہی ایک بار پھر معمولی سا مچھر ڈینگی کی صورت میں صور اسرافیل پھونکتا نظر آ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانگو بھی طبل جنگ بجا کر غریبوں پر ٹوٹ پڑا ہے۔ پنجاب میں ڈینگی زوروں پر ہے۔ مگر وزیر اعلیٰ صوبے کے حالات اور معاملات سے زیادہ سیاسی امور پر توجہ دینے میں مصروف نظر آ تے ہیں۔ انہیں فی الحال ملکی سیاست اور اپنے قائد کی خوشنودی زیادہ عزیز ہے۔ اس لیے عوام سے پہلے وہ ان امور پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ پچھلے نااہل حکمرانوں کے دور میں پنجاب میں ڈینگی نے زبردست حملہ کیا تھا اس کے تدارک کے لیے انہوں نے فوری طور پر شہروں اور دیہات میں فوگ سپرے کے ساتھ ادویات کے سپرے کا عمل متواتر جاری رکھا۔ ہسپتالوں میں ڈینگی وارڈ مختص کر دئیے۔ ڈینگی کا علاج معالجہ فری اور ہر ہسپتال میں ممکن بنایا۔ گندگی کی صفائی تیز کر دی۔ جس کی وجہ سے حالات کنٹرول کرنے میں آسانی رہی۔ مگر اب انقلابی حکومت تو آ گئی مگر انقلابی اقدامات پردہ غیب میں ہیں۔ پنجاب میں بھی صفائی کی صورتحال کچھ پہلے جیسی نہیں رہی۔ سپرے کا کام تو ’’ہنوز دلی دور است‘‘ والی بات ہے۔ جس کی وجہ سے مختلف شہروں میں ڈینگی چھا گیا ہے۔ مگر وزیر اعلیٰ کو شاید ’’ستے خیراں‘‘ کی رپورٹ ملتی ہے اس لیے وہ بھی مطمئن نظر آتے ہیں۔ سندھ میں ڈینگی کے ساتھ کانگو بھی موت بانٹتا پھر رہا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پی کے میں یہی حالت ہے۔ کسی ایک صوبے میں بھی حفاظتی انتظامات انقلابی سطح پر کئے جا رہے ہوتے تو راوی چین ہی چین لکھتا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کہیں سے بھی اچھی خبر نہیں مل رہی عوام میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے ہسپتالوں میں جگہ کم پڑ رہی ہے اور یہ ناہنجار چٹکی بھر مچھر ایک بار پھر قیامت ڈھا رہا ہے۔ شنید میں آیا ہے کہ حکومت جیل میں بند سابق وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کو پیشکش کر چکی ہے کہ وہ محکمہ صحت کے ساتھ مل کر ڈینگی کنٹرول کرنے کی حامی بھر لیں تو ان کو رہا کیا جا سکتا ہے۔ کیا معلوم اس کے بدلے مقدمات کا بھی مک مکا ہو جائے۔
٭٭٭٭٭
چین میں چاند زمین پر اتر آیا
تو بھلا یہ کون سی بڑی بات ہے۔ ہمارے ہاں تو صدیوں سے ہر سال ایک بار چاند آسمان سے گھروں کی چھتوں منڈیروں اور جھروکوں میں اتر آتا ہے اور دل پھینک حضرات …؎
کل جب میں نے دیکھا چاند جھروکے میں
اس کو کیاسلام تمہارے دھوکے میں
جی ہاں یہ شوال کا چاند ہے جسے عید کا چاند بھی کہتے ہیں۔ جس کی دید کے لیے لاکھوں چاند چہرے چھتوں پر نمودار ہوتے ہیں اور ان کی دید کر کے لاکھوں دلوں کی عید ہوتی ہے تو یہ بس دل جلے قسم کے کسی شاعر نے چاند چہروں کو دیکھ کر جل بھن کر کہا ہو گا …؎
میں تجھے چاند کہوں یہ مجھے منظور نہیں
چاند کے پاس بھی کیا رکھا ہے داغوں کے سوا
جب چین کے ایک شہر میں چاند کی تھیم سے بنے رنگا رنگ خوبصورت غبارے نے ہزاروں افراد کو اپنے حسن سے مہبوت کر کے رکھ دیا اور وہ اسے چاند سمجھ بیٹھے تھے تو یہ جو عید کا چاند دیکھنے کیلئے لاکھوں چاند چہرے چھتوں پر امڈ آتے ہیں۔ انہیں چاند نہ کہیں تو کیا کہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ ہماری شاعری آج تک انہی چاند چہروں کی وجہ سے چمک دمک رہی ہے۔ چاند مبارک ہو کا جملہ کبھی خطوط میں کبھی اشاروں کنائیوں میں اور اب موبائل میسج میں ٹاپ ٹرینڈ بن جاتا ہے۔ لوگ آج بھی عید کے چاند کی تصویر کے ساتھ کسی چاند چہرہ کی جھلک دکھا کر مبارکبادیں سینڈ کرتے ہیں۔ …؎
میں جو شاعر کبھی ہوتا تیرا سہرا کہتا
چاند کو چاند نہ کہتا تیرا چہرہ کہتا
٭٭٭٭٭