گزشتہ روز وفاقی حکومت کی جانب سے فنانس ترمیمی بل (منی بجٹ) پیش کردیا ہے جس میں مختلف شعبوں میں ٹیکس بڑھائے گئے ہیں ۔لیکن ٹیکس بڑھانے کی ترتیب اس احسن انداز میں دی گئی ہے کہ غریب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس ہمیشہ امیر پر لگایا جاتا ہے اور غریب کو سہولتیں دی جاتی ہیں، تاکہ معاشرے میں توازن قائم رہے۔ حالیہ منی بجٹ میں سگریٹ اور تمباکو پر ٹیکسز وزارت صحت کی تجویز پر بڑھائے گئے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ حکومت نے مئی جون کے بجائے اپریل ہی میں بجٹ پیش کیا تو یہی خیال کیا جا رہا تھا کہ الیکشن کے بعد بننے والی نئی حکومت اس بجٹ پر نظر ثانی کرے گی اور اپنا الگ بجٹ پیش کرے گی۔ بالکل ویسا ہی ہوا اور تحریک انصاف کی حکومت نے گزشتہ روز نیا نظرثانی شدہ بجٹ پیش کر دیا۔ جس میں نئی ٹیکس اصلاحات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ صاحب حیثیت افراد پر ٹیکس بڑھا دیا،اسد عمر نے وزیراعظم، وزرا اور گورنرز کو ٹیکس سے حاصل استثنیٰ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب ان اعلیٰ حکام سے بھی ٹیکس لیا جائے گا، مہنگے موبائل فونز ، سگریٹ مہنگی گاڑیاں، زیادہ تنخواہ لینے والے افراد، نان فائلرز پر بھی ٹیکس بڑھا دیا گیاہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ وفاقی حکومت نے ٹیکس اصلاحات کے لیے لائحہ عمل تیار کر لیا ہے۔
پاکستان کی وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی میں جو ’منی بجٹ‘ پیش کیا ہے اس میں بعض ٹیکس رعایتیں دی گئی ہیں جبکہ بعض چیزوں پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر عائد کردہ ٹیکس میں 100 ارب روپے کی کمی کی جا رہی ہے۔یہ ایک طرح سے اسد عمر نے حکومت میں آنے سے پہلے عوام سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ٹیکس کی کمی سے پیٹرول یا ڈیزل وغیرہ کی قیمت پر فوری طور پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔یہ ٹیکس اس وقت کارآمد ہو گا جب پیٹرولیم مصنوعات کی عالمی منڈی میں قیمت میں ایک حد سے زیادہ اضافہ ہو جائے۔حکومت نے درآمد شدہ قیمتی موبائل فونز، 1800 سی سی سے بڑی لگژری گاڑیوں اور کھانے پینے کی درآمد شدہ قیمتی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا ہے جس کے بعد ان مصنوعات کی قیمتوں میں فوری اضافہ متوقع ہے۔ البتہ کم قیمت کے موبائل فونز اور چھوٹی گاڑیوں کی قیمت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔حکومت نے ترقیاتی اخراجات میں 350 ارب روپے کی کمی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کٹوتی ان ترقیاتی سکیموں میں کی گئی ہے جن پر کام رکا ہوا تھا یا ان کے لیے رقم جاری نہیں کی گئی تھیں۔ جو ترقیاتی سکیمیں چل رہی ہیں ان کا بجٹ کم نہیں کیا جائے گا۔حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت بغیر نئے ٹیکس لگائے 183 ارب روپے کی اضافی آمدن حاصل کرے گی جس میں تقریباً نصف صرف ٹیکس چوری روک کر کی جائے گی۔
اگر ملک بھر میں ٹیکس چوری کی بات کی جائے تو اس حوالے سے میں نے گزشتہ کالم میں بھی اس بات کا اشارہ کیا تھا کہ ایف بی آر میں بہت سی تبدیلیاں لائی جارہی ہیں، جبکہ اس حوالے سے بھی سنا جا رہا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو FBRکو ختم کر کے اس کی جگہ نیشنل ٹیکس اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ اصلاحاتی عمل میں ٹیکسز کو سادہ اور شفاف بنانے کے لیے بعض تبدیلیوں کو بروئے کار لایا جائے گا۔ پاکستان کی مالیاتی مشکلات کی سب سے بڑی وجہ سرکاری مشینری کی ٹیکس جمع کرنے کی ناقابل اعتبار صلاحیت ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اس تمام مسئلے کا محور رہا ہے۔ صوبائی اور وفاق کی سطح پر درجنوں ادارے ہیں جو پیداوار،تجارت، درآمد برآمد، خدمات ، خریدوفروخت، تنخواہوں اور املاک پر ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔ ہر محکمے کی ٹیکس مشینری نے سرکاری ضابطوں کے متوازی اپنے اصول اور ضابطے ترتیب دے رکھے ہیں۔ جب ٹیکس اکٹھا کرنے والا محکمہ ہی رج کے کرپٹ ہو گا تو ریونیو کیسے اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ اور ویسے بھی ہر ریاست کو نظام چلانے کے لیے رقم کی ضرورت ہوتی ہے، حکومتیں اس رقم کے حصول کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتی ہیں، لیکن زیادہ تر انحصار عوام سے ملنے والے ٹیکس پر ہوتا ہے۔ حکومت اس کے لیے ریونیو کے مواقع پیدا کرتی ہے ، سیلز پرچیز پر ٹیکس لاگو کرتی ہے، عوام کی سالانہ آمدنی پربھی ٹیکس عائد کرکے ’’اخراجات‘‘ کی مد میں صحت، تعلیم سبسڈیز، انفراسٹرکچر اور قرض فراہمی وغیرہ جیسی سروسز فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں بھی ٹیکس کا باقاعدہ ایک نظام ہے۔ جس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو حکومت عوام کی سہولیات جیسے تعلیم، صحت، انفراسٹریکچر اور سبسڈیز مہیا کرنے پر صرف کرتی ہے۔ ٹیکس کا ایک باقاعدہ طریقہ کار اور قانون ہوتا ہے جس کا نام انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ء ہے۔ آزادی کے بعد انڈیا اور پاکستان نے Undiveded ٹیکس ایڈاپٹ کر لیا تھا، جس کا نام انکم ٹیکس ایکٹ 1922 تھا۔ پھر پاکستان نے 32سال بعد اپنا ٹیکس کا قانون بنایا، جس کا نام انکم ٹیکس آرڈیننس 1979 تھا۔ 2000 ء تک یہی قانون چلتا رہا۔ 2001 ء میں ایک نیا قانون متعارف کرایا گیا، جس کا نام انکم ٹیکس آرڈینیس 2001 ہے، اس کے بعد سابقہ حکومت نے فنانس ایکٹ 2018ء ایکٹ متعارف کروایا ۔
ا سٹیٹ بنک کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں 5کروڑ 75لاکھ افراد ملازمت پیشہ ہیں۔ ان کی بڑی تعداد ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ حال ہی میں ایک رپورٹ منظر عام آئی ہے کہ ملک میں ایسی 54ہزار کمپنیاں ہیں جو ٹیکس ادا نہیں کرتیں یا ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرا رہیں۔ نئی حکومت کے اصلاحاتی پروگرام میں عوام کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش دکھائی دیتی ہے۔ شہریوں کو ان کی آمدن کے حساب سے مخصوص ایک ہی ٹیکس کی ادائیگی خوشگوار ثابت ہو سکتی ہے تاہم بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کا بہت زیادہ استعمال ٹیکس تنازعات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے فعال اور تیز رفتار ٹیکس ٹربیونلز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لہٰذا حکومت ٹیکس اصلاحات متعارف کراتے ہوئے ٹیکس ٹربیونلز کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ بھی کرے تو نئے تنازعات سے احسن طور پر نمٹا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ 600سے 800ارب روپیہ سمگلنگ کی وجہ سے ٹیکس میں شامل نہیں ہو پاتا۔ لگ بھگ 700ارب روپیہ انڈر انوائسنگ کی وجہ سے سرکاری خزانے میں جمع نہیں ہو رہا۔ ایک ٹیکس متعارف کرانے کے لیے شرح آمدن کا فارمولا معقول دکھائی دیتا ہے۔ بلاشبہ بہت سے لوگ ٹیکس سے متعلقہ دستاویزات پیچیدہ اور گنجلک ہونے کے باعث ٹیکس نہیں دیتے۔
ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ترقی یافتہ ممالک جن میں امریکہ سر فہرست ہے اس میں ٹیکسوںکی وصولی کا راز کیا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ وہاں لوگ دیانتداری سے اپنا انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ امریکہ میں انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد100فیصد ہے اور شرح ٹیکس دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ چین اور یورپین ممالک میں بھی بچوں بوڑھوں کے علاوہ ہر فرد اور ادارہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ بھارت ہم سے غریب اور کم وسائل کا ملک ہے جہاں 40%عوام فٹ پاتھوں اور پارکوں میں رات بسر کرتے ہیں۔ وہاں انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد2کروڑ ہے جو انکم ٹیکس کا گوشوارہ داخل کرتے ہیں۔گویا کل آبادی کا 2فیصد حصہ ٹیکس دہندہ ہیں۔ جبکہ پاکستان میں2000ء میں انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد33لاکھ تھی جواب2018میں گھٹ کر20لاکھ رہ گئی ہے جو کل آبادی کا صرف ایک فیصد بنتی ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہر پاکستانی قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنا انکم ٹیکس قانون کے مطابق مقررہ وقت پر ادا کرے تو اتنا کثیر سرمایہ وصول ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے ٹیکس یا سرچارج وغیرہ لگانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
بہرکیف حکومت کی اپنی ترجیحات ہیں وہ اگر وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں فروخت کرکے اپنے وسائل بڑھانا چاہتی ہے تو اس کی مرضی ہے لیکن ٹیکس نیٹ کو منطقی اصولوں کے تحت وسیع کئے بغیر طویل المدت مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ ٹیکس کا بنیادی اصول یہ ہونا چاہیے کہ امرا سے وصول کیا جائے اور غریبوں پر خرچ کیا جائے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت بھی نکتہ چینی سے بچی رہے گی اور مطلوبہ مقاصد بھی حاصل ہو جائیں گے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے اور براہ راست ٹیکسوں میں معقول اضافہ کرکے اگر ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان یہ دعویٰ بار بار کرتے رہے ہیں کہ اگر اوپر دیانتدار آدمی بیٹھا ہو تو لوگ خوشی سے ٹیکس دیں گے اب چونکہ یہ شرط پوری ہو گئی ہے اس لئے انہیں اتنے براہِ راست ٹیکس لگا دینے چاہئیں کہ ٹیکسوں کا موجودہ ہدف دو یا تین گنا بڑھ جائے لیکن ترمیم شدہ بجٹ میں رکھی گئی شرح نمو کا ہدف تو کم کر دیا گیا ہے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف فی الحال نہیں بڑھایا گیا حالانکہ اشیائے تعیش پر ٹیکس لگا کر ٹیکسوں کی آمدنی میں اضافہ ممکن ہے لیکن ہدف یہ ہونا چاہیے کہ آئندہ بھی غریب پر کم از کم ٹیکس لگے، اور حکومت کی پاپولیرٹی میں کسی صورت بھی کمی نہ آئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024