دن اداس ہیں اور شامیں سوگوار
شایدغم حسین کا موسم آ گیاہے
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کے بیٹے حضرت حسنؓ اور حسینؓ کے ساتھ کھیل رہے تھے اور شہزادوں نے انہیں ‘‘ غلام زادے ‘‘ کہہ دیا۔ اس پر وہ روتے ہوئے اپنے والد کے پاس گئے تو حضرت عمرؓ نے انہیں کاغذ اور قلم دیا اور فرمایا ‘‘جاؤ جلدی سے لکھوا لو آخرت میں شفاعت کے کام آ ئے گا ‘‘۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھانے اپنے والد محترم سیدنا ابو بکرؓ سے پوچھا بابا آپ علی کو اتنے غور سے کیوں دیکھ رہے ہیں تو انہوں نے فرمایا ‘‘ بیٹی حضور پاک صلی اللہ وسلم نے فرمایا تھا کہ علی کا چہرہ دیکھناانہیں سننا عبادت ہے ‘‘۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے آخری حج سے واپسی پر ‘‘ مقام غدیر ‘‘ پر ان کا ہاتھ پکڑ کر بلند کرتے ہوئے فرمایا تھا ‘‘ جس کا میں مولااس کا علی مولا ‘‘۔ ( متفق علیہ)بغض معاویہ اور حب علی کی تو مولا علی خود فرماتے تھے ‘‘ تم میں سے ایک گروہ ایسا ہو گا جو مجھے میرے مقام سے اتنا آگے بڑھا دے گا کہ کفر اختیار کر جائے گا اور ایک گروہ اتنا گرا دے گا کہ اپنے لئے اللہ پاک کا عذاب تیار کر لے گا ‘‘
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم شہید کربلا امام عالی مقام حضرت حسینؓ سے بہت محبت فر ماتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معر کہ عظیم حق وباطل میں فرق کر نے والی جنگ کربلا کے دن کے لیے حضرت امام حسینؓ کی خود تر بیت فر مائی تھی اورآپ فر ماتے تھے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت کے اوباش حا کم شہید کریں گے۔اور یہ بھی فر ماتے اے ام سلمہ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو یقین کر لینا کہ میرا لخت جگر شہید کیا گیا۔( معجم الکبیر عربی) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم دونوں بچوں کی پر ورش میں لگے رہتے آپ ہی کے گہوارہ میں آپ دونوں پر وان چڑھ رہے تھے۔ ایک طرف نبی آپ خر الز ماں جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی جیسا کہ حدیث میں ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اخلاق کے مالک تھے۔
نواسوں سے رسول اللہ کی محبت۔حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ بہت محبت فر ماتے۔ سینہ مبا رک پر بٹھاتے، کا ندھوں پر چڑھا تے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے کہ ان سے محبت رکھو۔ لیکن چھوٹے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا کچھ خاص امتیاز تھا۔آپ نماز میں سجدہ کی حالت میں تھے کہ حسین رضی اللہ عنہ پشت (پیٹھ) مبارک پر آپ گئے یہاں تک کہ (بچہ) امام حسین رضی اللہ عنہ خود سے بخوشی پشت پر سے اتر گئے تو آپ نے سر سجدے سے اٹھایا۔ نبی کریم ارشاد فر ماتے ہیں ’’جس نے حسینؓ سے محبت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی(مشکوٰۃ،ص571) اسی لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کر ناہے اور حضور سے محبت کر نا اللہ تعا لیٰ سے محبت کر نا ہے ( مشکوٰۃ) کربلا کا یہ واقعہ تاریخ اسلام کا بڑا افسوسناک حادثہ تھا، اس واقعہ کی خبر اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کر دی تھی۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ایک شیشی میں کچھ مٹی دے کر فرمایا تھا کہ یہ اس جگہ کی مٹی ہے، جہاں میرے نواسے کو شہید کیا جائے گا۔ جب وہ شہید ہوگا تو یہ مٹی خون کی طرح سرخ ہو جائے گی۔
کربلا کے واقعے کے وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اور جس وقت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے یہ مٹی خون کی طرح سرخ اور مائع ہو گئی تھی۔ اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی، اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں’’ اے نبی ’فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور آپ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)۔ حضور علیہ السلام نے اپنی قرابت اور اپنی اہل بیت سے محبت کو ہمارے اوپر فرض و واجب قرار دیا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024