وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ پاکستان پر غیر ملکی قرضے 95 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ وزیر خزانہ نے ایک اور پریشان کن خبر یہ دی ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ بجٹ خسارہ 6.6 فیصد تک پہنچ گیا ہے اگر اس خسارے کو کم کرنے کے لئے کچھ نہ کیا گیا کہ بجٹ خسارہ 7 فیصد سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ سٹیٹ بینک نے کچھ عرصہ قبل قرضوں کے بارے میں جو اعداد و شمار دئیے تھے ان میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے ذمہ غیر ملکی قرضے 91.761 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ فگر مارچ 2018 کے تھے اب اسد عمر نے بتایا ہے کہ غیر ملکی قرضہ 95 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ سٹیٹ بینک نے اپنی اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2013 سے 2018 تک 30 ارب ڈالر کا مزید قرضہ ملک پر چڑھا دیا۔ سٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ جون 2017 تک پاکستان پر غیر ملکی قرضہ 83 ارب 48 کروڑ ڈالر تھا۔ جب 91 ارب ڈالر سے زیادہ ہو گیا۔ جون 2017 سے مارچ 2018 کی درمیانی مدت جو 9 ماہ بنتی ہے پاکستان مسلم لیگ ن حکومت نے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کا مزید قرض لیا۔
وزیراعظم عمران خان اپنے عوامی جلسوں اور قومی اسمبلی کے خطاب میں یہ تسلسل سے کہتے رہے ہیں کہ پاکستان پر ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 30 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار ہیں۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان جو بیرونی قرضے لے رہا ہے وہ کسی ترقیاتی مقصد کے لئے نہیں بلکہ یہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے لے جا رہے ہیں۔
قرض لے کر ملک کو چلانا ہماری حکومتوں کی شروع سے پالیسی رہی ہے لیکن ماضی کی حکومتوں نے جو قرضے لئے وہ اس حد تک نہیں پہنچے تھے کہ معیشت دیوالیہ ہو جائے۔ بیرونی قرضے واپس کرنے کے لئے مزید قرضوں کی ضرورت پڑے۔ تحریک انصاف کی حکومت مختصر مدت میں بے تحاشا اضافہ کا ذمہ دار مسلم لیگ ن کو ٹھہراتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے معاشی منیجروں کو اس الزام کا جواب دینا چاہئے۔ ن لیگ کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار تو اس وقت لندن میں ہیں جن پر کئی طرح کے الزامات ہیں۔ موجودہ حکومت ان کو وطن واپس لانے کے لئے بڑے جتن کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے سابق وزیر خزانہ کو واپس لانے کی ہدایت کر رکھی ہے۔ اسحاق ڈار ہی سابق حکومت کی اکنامک مینجمنٹ ٹیم کی قیادت کر رہے تھے وہی وضاحت کر سکتے ہیں کہ اس حد تک غیر ملکی قرضے لینے کا کیا سبب تھا۔ ماہرین معیشت کے ایک مکتب فکر کا نظریہ یہ ہے کہ معیشت کے پہیہ کو چلانے کے لئے قرض لینے میں کوئی حرج نہیں۔ کئی مغربی ملکوں کی معیشتیں قرضوں پر چل رہی ہیں لیکن ان ملکوں میں قرض پر چلنے والی اکانومیز ترقی کر رہی ہوتی ہیں۔ ان میں یہ سکت ہوتی ہے کہ جو قرض معیشت کو گردش میں لانے کے لئے لیا گیا تھا وہ یہ قرض واپس کر دیتی ہیں۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ 95 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ چڑھانے کے باوجود ہماری معیشت میں ترقی کرنے یعنی Grow کرنے کی اس حد تک صلاحیت پیدا نہیں ہو سکی کہ وہ اس قرض کو ختم کر سکے جس کی بنیاد یہ وجود میں آئی ہے۔ ہمارے معاشی منیجروں کے پاس یہ آسان نسخہ رہا ہے کہ قرض لے کر بجٹ کا خسارہ پورا کر لیا جائے یا کسی دوسری مالی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے آئی ایم ایف‘ عالمی بینک‘ ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرض لے لیا جائے یا کسی دوست ملک خاص طورپر چین‘ سعودی عرب‘ عرب امارات سے بجٹ کا خسارہ پورا کرنے یا زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کو پورا کرنے کے لئے مانگ تانگ کر ضرورت پوری کر لی جائے۔ کئی غیر ملکی ماہرین جب یہ سنتے ہیں کہ پاکستان پر 95 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے چڑھ گئے ہیں تو وہ فوری طورپر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ یہ پیسہ کہاں گیا....؟ اتنا زیادہ قرض جو لیا گیا ہے اس کے پاکستان کی معیشت یا لوگوں کی زندگی پر کوئی اثرات نظر نہیں آتے۔
تحریک انصاف کی حکومت بھی وہی کہہ رہی ہے جو ماضی کی حکومتیں کہتی رہی ہیں جب بھی پاکستان میں نئی حکومت آتی ہے وہ خزانے کے خالی ہونے اور معیشت کے دیوالیہ ہونے کا رونا روتی ہے۔ وزیر خزانہ نے جو نیا منی بجٹ پیش کیا ہے اس کا جواز یہی بتایا ہے کہ معاشی حالت بہت خراب ہے اس لئے سخت اقدامات کرنا پڑ رہے ہیں۔ وزیر خزانہ کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ملک سے بدعنوانی ختم کر کے اور گورننس کو بہتر بنا کر معیشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ کرپشن کے خاتمے سے پیسہ بچایا جا سکتا ہے۔ کفایت شعاری کے ذریعہ بھی قومی خزانہ کو بچایا جا سکتا ہے لیکن معاشی ترقی یعنی اکنامک گروتھ کے لئے جس حکمت عملی کی ضرورت ہے وہ ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ وزیر خزانہ اور ان کے معاشی مشیروں پر قوم نظریں لگائے ہوئے ہے کہ ان کے پاس ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لئے کیا نسخہ ہے۔ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ بیرون ملک پاکستان سے چوری کئے گئے جو اربوں ڈالر بینکوں میں پڑے ہیں یا جائیدادوں میں انوسٹ کئے گئے ہیں وہ کب اور کس طرح واپس آئیں گے۔ گزشتہ روز ایک سابق سرکاری ملازم کو لندن میں وہاں کے ایک ادارے نے 8 بلین پا¶نڈز سے زیادہ مالیت کی جائیداد خریدنے پر گرفتار کیا اور پھر اسے رہا کر دیا۔ مذکورہ سرکاری ملازم کسی بڑے عہدہ پر فائز نہیں تھا۔ یہاں بڑے بڑے عہدوں پر ایسے لوگ بھی فائز رہے ہیں جن کی کھربوں روپے مالیت کی بیرون ملک جائیداد ہے اگر حکومت ان لوگوں کا تعاقب کرتی رہی اور سنجیدگی سے ان سے لوٹی ہوئی دولت لینے کی کوششیں کرتی رہی تو وہ لوٹے ہوئے پیسے کا کچھ حصہ تو واپس لا سکتی ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024