پی ٹی آئی حکومت کے نظرثانی بجٹ میں عام طبقات پر بوجھ میں اضافہ‘ ای او بی آئی پنشنرز کو ریلیف
پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے نظرثانی شدہ بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے۔ یہ بجٹ وفاقی وزیر خزانہ اسدعمر نے پیش کیا اور بتایا کہ سابق حکومت کے منظور کردہ بجٹ پر نظرثانی کرتے ہوئے 18 سو سی سی سے اوپر کی گاڑیوں پر ڈیوٹی بڑھانے اور سگریٹ پر مزید ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی گئی ہے جبکہ نان فائلر کیلئے نئی گاڑی اور جائیداد خریدنے پر پابندی ختم کردی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے قرض لینا پڑ رہا ہے جبکہ خسارہ بھی قرض لے کر پورا کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے کئے گئے اقدامات کے نتائج سامنے آنے میں وقت لگے گا‘ ہم گورننس بہتر کرنے کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ ہمیں چوروں کیخلاف کارروائی کیلئے فوری اقدامات کرنا ہونگے۔ انہوں نے بتایا کہ سٹیٹ بنک کے ذخائر تیزی سے گر رہے ہیں‘ کرنٹ اکائونٹ خسارے کا تخمینہ 18 سے 21 ارب ڈالرز ہے جبکہ گزشتہ مالی سال میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 18‘ ارب ڈالر تھا۔ انکے بقول حکومت نے نان فائلرز پر بوجھ ڈالا ہے جبکہ تنخواہ دار طبقہ کیلئے زیادہ سے زیادہ ٹیکس 25 فیصد کردیا گیا ہے۔ انکے مطابق نان سیلری کلاس کیلئے زیادہ سے زیادہ ٹیکس 29 فیصد ہوگا۔ مجوزہ نظرثانی شدہ بجٹ کے مطابق بنک ٹرانزیکشن پر نان فائلر 0.6 فیصد ٹیکس ادا کریگا۔ سالانہ 12 لاکھ روپے آمدنی والے افراد سے اضافی ٹیکس وصول نہیں کیا جائیگا جبکہ دو لاکھ روپے ماہانہ ٹیکس دینے والے کسی شخص پر بھی اضافی بوجھ نہیں ڈالا گیا۔
مجوزہ فنانس بل کے مطابق چار لاکھ روپے سالانہ تک کی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔ چار سے آٹھ لاکھ روپے سالانہ آمدن پر ایک ہزار‘ آٹھ سے 12 لاکھ روپے کی آمدن پر دو ہزار روپے اور 12 سے 24 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدن پر پانچ فیصد ٹیکس لاگو ہوگا۔ اسی طرح 30 سے 40 لاکھ روپے تک کی آمدن پر ڈیڑھ لاکھ روپے فکسڈ ہوگا جبکہ 30 سے 40 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی پر 20 فیصد اضافی ٹیکس بھی لاگو ہوگا۔ فنانس بل کے مطابق 40 سے 50 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدن والوں کو ساڑھے تین لاکھ روپے فکسڈ ٹیکس ادا کرنا ہوگا جبکہ ان پر 25 فیصد انکم ٹیکس بھی لاگو ہوگا۔ انہوں نے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں دس فیصد اضافے اور ای او بی آئی پنشنرز کیلئے ماہانہ دس ہزار روپے پنشن کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ کسان کی آسانی کیلئے کھاد کی ترسیل بڑھائی جارہی ہے جبکہ تمباکو پر ٹیکس بھی بڑھایا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یوریا کی قیمتوں میں استحکام کیلئے سات ارب روپے کی سبسڈی منظور کی گئی ہے۔ مزدوروں کیلئے آٹھ ہزار 276 گھر تعمیر کئے جائینگے جبکہ برآمدی صنعت کیلئے خام مال اور 82 مصنوعات پر ڈیوٹی ختم کی جارہی ہے جبکہ 9 سو درآمدی اشیاء پر ایک فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جارہی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے اگرچہ اس امر کا دعویٰ کیا ہے کہ نظرثانی شدہ بجٹ میں غریب اور متوسط طبقے پر کم بوجھ ڈالا گیا ہے اور اصحاب ثروت پر زیادہ بوجھ پڑیگا۔ دو روز قبل انہوں نے اس امر کا بھی اظہار کیا تھا کہ نئے ٹیکسوں سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا تاہم انکے پیش کئے گئے فنانس بل کے تحت سابق حکومت کے بجٹ میں 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن تک دی گئی ٹیکس کی چھوٹ پر نظرثانی کرکے یہ چھوٹ صرف چار لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر دی جارہی ہے جس سے بالخصوص معمولی ملازمت والے تنخوا ہ دار دوسرے غریب طبقات بھی ٹیکس نیٹ میں آجائینگے اور اسی طرح تجویز کردہ نئے ٹیکسوں کا بوجھ بھی زیادہ تر معاشرے کے عام طبقات پر ہی پڑیگا۔ اسی طرح جن 9 سو درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی عائد کی جارہی ہے‘ ان میں سے اکثر اشیاء بھی عام طبقات ہی کے زیراستعمال آتی ہیں۔ علاوہ ازیں موبائل فونز پر بھی ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ تجویز کیا گیا جس سے زیادہ تر عام آدمی ہی متاثر ہوگا جبکہ ایئرکنڈیشنڈ‘ فریج‘ ڈیپ فریزر اور ایل ای ڈیز سمیت متعدد الیکٹرانک اشیاء بھی مجوزہ فنانس بل سے مہنگی ہوںگی تو اسکے بوجھ سے بھی عام آدمی نہیں بچ پائے گا۔ بے شک سگریٹ اور تمباکو کی دوسری مضرِ صحت مصنوعات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا مستحسن اقدام اٹھایا گیا ہے تاہم روزمرہ استعمال کی اشیاء مزید مہنگی ہونے کے باعث عام آدمی کی صحت خراب ہی ہوگی۔ اسی طرح آٹھ سو ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں سے 140‘ ارب روپے کی کمی کی تجویز بھی زیادہ تر عام آدمی کے مستفید ہونیوالے ترقیاتی منصوبوں کو ہی متاثر کریگی۔
حکومت نے فی الوقت بجلی کے نرخوں میں اضافہ تو روک لیا ہے مگر عام گھریلو صارفین کیلئے گیس 20 فیصد تک مہنگی کردی گئی ہے جس کا گزشتہ روز وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور نے باضابطہ طور پر اعلان کیا جس کے مطابق گیس کے گھریلو صارفین کیلئے نرخوں کے سلیب تین سے بڑھا کر سات کردیئے گئے ہیں جس کے باعث گھریلو صارفین پر گیس کے بلوں کی مد میں مزید ناقابل برداشت بوجھ پڑ جائیگا۔ بے شک ایل پی جی پر ٹیکس ختم کرکے گھریلو سلنڈر 200 روپے سستا کیا گیا ہے مگر اس رعایت سے صرف ان طبقات کو فائدہ ہوگا جو ابھی تک سوئی نادرن اور سدرن گیس کی سہولت سے محروم ہیں اور مجبوراً انہیں گیس سلنڈر استعمال کرنا پڑتا ہے جو حکومت کی فراہم کردہ گیس کی نسبت بہت مہنگا ہوتا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کے لائے گئے نظرثانی شدہ بجٹ سے عام آدمی کو ریلیف سے زیادہ بوجھ اٹھانا پڑیگا۔ اس مجوزہ بجٹ میں پنشنرز حضرات کو بھی معمولی ریلیف ملے گا جن کی پنشن میں دس فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے جبکہ سابق حکومت نے بھی پنشن میں دس فیصد ہی اضافہ کیا تھا۔ موجودہ حکومت نے صرف ای او بی آئی کے تحت پنشن لینے والے افراد کی ضعیف العمری کا خیال کیا ہے جن کی پنشن پانچ ہزار 250 روپے سے بڑھا کر دس ہزار روپے تجویز کی گئی ہے۔ یہ طبقات اس لئے بھی مطمئن ہونگے کہ سابقہ کسی بھی حکومت کے دور میں انکی نہیں سنی گئی تھی۔ اسکے سوا عام طبقات کو پی ٹی آئی حکومت کے مجوزہ بجٹ سے کوئی زیادہ ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا۔
بے شک سابق حکومت کے منظور کردہ بجٹ پر نظرثانی موجودہ حکمرانوں کی مجبوری تھی کیونکہ سابق حکومت کے بجٹ کے تحت اپنی حکومتی ترجیحات کو عملی جامہ پہنانا ان کیلئے مشکل ہوتا تاہم مجوزہ بجٹ میں وزیراعظم عمران خان کے ریاست مدینہ والے تصور کی جھلک تو نظر آنی چاہیے تھی۔ عمران خان نے اپنی انتخابی تقاریر کے علاوہ بطور وزیراعظم قوم سے اپنے پہلے خطاب میں بھی بطور خاص ملک کی اقتصادی صورتحال بہتر بنانے اور ریاست مدینہ کی طرز کا فلاحی معاشرہ تشکیل دینے کے عزم کا اظہار کیا جس کیلئے انہوں نے ملک کی اقتصادی پالیسیوں کو فوکس کیا اور ان میں تبدیلی لا کر ملک اور عوام کا مقدر سنوارنے کے عزم کا اعادہ کیا چنانچہ انکے اور پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ عوام کو بہت زیادہ توقعات وابستہ ہوئیں۔ اگر مجوزہ بجٹ کے نتیجہ میں عمران خان کے اقتدار کے ساتھ وابستہ ہونیوالی عوام کی توقعات ماند پڑتی ہیں تو اس سے لیڈرشپ کے معاملہ میں عوام کا رومانٹسزم ہی نہیں ٹوٹے گا‘ انکے روزمرہ کے مسائل گھمبیر ہونے سے سلطانیٔ جمہور پر حرف آنا بھی فطری امر ہوگا۔
ریونیو بڑھانے کیلئے ٹیکس نیٹ میں اضافہ یقیناً حکومت کی مجبوری ہے مگر ٹیکس نیٹ میں معمولی آمدن والے عام آدمی کے بجائے زیادہ سے زیادہ ان طبقات کو لایا جائے جن کے اللے تللوں کی کوئی حد ہی نہیں ہے اور جو مختلف حیلوں بہانوں سے اور قانون شکنی کرتے ہوئے خود پر ٹیکسوں کا بوجھ پڑنے ہی نہیں دیتے۔ اس حوالے سے مشرف دور کے ایک وزیر خزانہ کا بجٹ تقریر میں یہ بیان آج بھی اسمبلی کے ریکارڈ پر موجود ہو گا کہ ملک کی منتخب اسمبلیوں میں بیٹھے مجموعی 12 سومیں سے ساڑھے آٹھ سو ارکان قومی خزانے میں ایک دھیلہ بھی جمع نہیں کراتے۔ اس تناظر میں اگر بڑی مچھلیوں کو زیادہ سے زیادہ ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تو اس سے نہ صرف غریب طبقات کو ٹیکس کے بوجھ سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ قومی خزانہ بھی بھرا جا سکتا ہے۔ حکومت کو یہ حقیقت بہرصورت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ میں کٹوتی کرکے معیشت کی ترقی و استحکام کا خواب ہرگز شرمندہ تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی بجٹ پر نظرثانی کیلئے انہی بیوروکریٹس اور اقتصادی مشیروں پر تکیہ کیا ہے جو حکمرانوں کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھا کر ملک کے عام طبقات کو راندۂ درگاہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے جبکہ انکی بے تدبیریوں کا خمیازہ حکمرانوں کو آئندہ انتخابات میں بھگتنا پڑتا ہے۔