بدھ ‘ 8؍محرم الحرام 1440 ھ ‘ 19؍ ستمبر 2018ء
خیبر پی کے اور سندھ اسمبلی میں نے کالا باغ ڈیم کے خلاف قرارداد جمع کرا دی گئی
عوامی نیشنل پارٹی یعنی ولی خان صاحب والی اے این پی کی کالا باغ ڈیم مخالفت کی وجہ اپنے پرکھوں کی پاکستان بننے کی وجہ سے وہ بری طرح کی شکست ہے جسے وہ آج تک ہضم نہیں کر سکے۔ مگر یہ پیپلزپارٹی کو کیا ہوا وہ کیوں بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بنی ہوئی ہے۔ جب پیپلزپارٹی کے قائد اور بانی بھٹو تخت نشین تھے تو انہوں نے ہی کالا باغ پر ہوم ورک کا آغاز کیا تھا۔ ان کے بعد جب گھسے پٹے مسترد کردہ قوم پرستوں اور بھارت کی خیرات پر پلنے والوں نے اس پارٹی پر قبضہ کیا تو انہوں نے اپنی ماضی کی شکست کا بدلہ لینا شروع کر دیا۔ اب اے این پی پاکستان کے لئے ریفرنڈم میں شکست، سرحدی گاندھی کی سیاست کی صوبے میں ناکامی کا بدلہ لے رہی ہے تو یہی کام پی پی پی کے اندر چھپی قوتیں بھی سندھو دیش کی ناکامی کا زخم چاٹتے ہوئے کر رہی ہے۔ سوائے ان دو جماعتوں اور چند ایک مردہ قوم پرست تحریکوں کے شاید ہی کوئی باہوش پاکستانی کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتا ہو۔ مخالفت کرنے والے ان عقل کے اندھوں کو پاکستان میں دن بدن بڑھتی ہوئی پانی کی قلت، توانائی کا بحران اور پورے ملک کو بنجر کرتی ہوئی خشک سالی کیوں نظر نہیں آتی۔ اب تو خیبر پی کے اسمبلی میں تبدیلی کے شہسوار قابض ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اسمبلی میں اس قرارداد کو بھاری ووٹوں سے مسترد کر دیں۔ رہی بات سندھ کی تو وہاں کے محب وطن ممبران اسمبلی بھی مل کر اپنے ضمیر کی آواز پر اس قرارداد کو مسترد کر سکتے ہیں۔ اس طرح وہ دن تاریخ پاکستان میں تبدیلی کا حقیقی دن بن کر طلوع ہو گا…
٭٭٭٭٭
سراج الحق وزیراعظم سے مصافحہ کے لئے انتظار میں کھڑے رہے
وقت جب بدلتا ہے۔ انسانوں کو بھی بدل دیتا ہے۔ کل تک جو ایک دوسرے کے گلے کا ہار ہوتے ہیں وہ وقت بدلنے پر ایک دوسرے کے تلوے میں چبھا خار بن جاتے ہیں۔ جن کے بغیر سب کچھ سونا سونا سا لگتا تھا۔ ان کی موجودگی تکلیف دیتی ہے۔ الیکشن کے بعد سراج الحق صاحب کے بیانات دیکھ لیں وہ لمحہ بہ لمحہ تحریک انصاف کی حکومت کے سخت ناقدین میں نظر آتے ہیں۔ حالانکہ پورے پانچ برس وہ رقیب نہیں حلیف تھے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں صدر مملکت کے خطاب کے بعد جب لوگ وزیراعظم خان کی دست بوسی کا شرف حاصل کر رہے تو سراج صاحب بھی ایک طرف کھڑے بقول مجروح سلطان پوری
’’ہم بھی کھڑے ہیں صف گہنگار کی طرح‘‘
عجب انداز میں یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ اگر انہوں نے خیبر پی کے میں حکومت کے خاتمے بعد خان صاحب سے ہی اتحاد کیا ہوتا ۔ایم ایم اے کا چلا ہوا کارتوس دوبارہ چلانے کی کوشش نہ کی ہوتی تو گزشتہ روز وہ بھی وزیراعظم کے پہلو میں فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کھڑے ہو کر سلامیاں وصول کرتے۔ مگر گزشتہ روز تو اسمبلی میں چچا غالب کے اس شعر کو عملی قالب میں ڈھالتے نظر آرہے تھے کہ…؎
آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد
مجھ سے میرے گناہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
پاکستانی سالانہ سوا دو ارب کے سگریٹ پی جاتے ہیں
یہ اس قوم کا حال ہے جو ایک طرف فاقوں کا رونا روتی ہے۔ دوسری طرف اسے بیماریوں نے گھیر رکھا ہے۔ اس دھویں کے جال سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ یا تو ملک بھر میں سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کی جائے یا پھر اس زہر سے بھری ہوئی ڈبیا پر اتنے ٹیکس لگائے جائیں کہ عام آدمی اس کا زہریلا دھواں سینے میں اتارنے کی ہمت ہی نہ کرے۔ پیسے والوں کی تو بات چھوڑیں وہ تو ہزار روپے کی ڈبیا بھی خرید لیں گے۔ ان کے پاس بیماری کی صورت میں اچھے سے اچھے نجی ہسپتالوں میں جاکے علاج کے لئے پیسہ بھی ہے ا ور وقت بھی۔ عام آدمی پہلے ہی شامت اعمال کا مارا ہوتا ہے۔ بیماری کی صورت میں سرکاری ہسپتال جائے تو وہاں دھکے کھا کھا کر اور بھی بیمار ہو جاتا ہے۔ اس لئے اب نئی حکومت نے سگریٹ مہنگے کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے۔ سگریٹ نہ پینے والے اس کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ یہ وہ مظلوم لوگ ہیں جوسگریٹ نہ پینے کے باوجوداردگرد دھوئیں کے مرغولے بنانے والوں کی وجہ سے اپنی صحت خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر زبان سے ایک لفظ بھی نہیں بولتے۔ کیونکہ جواب میں کبھی اچھا ردعمل نہیں ملتا۔ حقہ بھی تمباکو نوشی کی ہی قدیم شکل ہے مگر شکر ہے وہ ہاتھ میں لے کرسگریٹ کی طرح ہرجگہ ساتھ لے جایا اور پیا نہیں جاتا۔ اس کے نقصانات بھی سگریٹ کی نسبت بہت کم ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ حقہ نوشی شروع کر دیں۔ اب تو حقہ کب کا پرانے گھروں کے سٹور یا کسی کونے کھدرے میں پڑا اپنی بے قدری کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ اس کی جگہ شیشے نے لے لی ہے جو سراسر صحت کا دشمن اور خطرناک نشہ ہے…
٭٭٭٭٭
ترکی میں پرندوں کی آواز میں باتیں کرنے والا گائوں
معلوم نہیں اس گائوں کے رہنے والے کس طرح یہ عظیم کارنامہ انجام دیتے ہیں۔ انسان تو حیوان ناطق ہے۔ بولے بنا اسے چین نہیں آتا۔ صرف سیٹیاں تو لچے لفنگے بجاتے ہیں۔ رہی بات جانوروں کی طرح صرف آواز میں گفتگو کرنا تو یہ حیران کن ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر رات کو دوست کو گھر سے باہر بلانے کے لئے یا محبوب کو چھت پر بلانے کے لئے گلی میں یا چھت پر کھڑا انسان ہی عام طور پر جانوروں کی بولی بولتا ہے، کوئی کوئل بنتا ہے کوئی پپییہابن کر چہکتا ہے تو کوئی بلی کی طرح میائوں میائوں کرتا ہے۔ کئی شریف دوست تو کتے کی طرح بھوئوں بھوئوں بھی کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ مخصوص انداز کی سیٹی بھی بجاتے ہیں ۔ اشارہ بازی بھی ایک ا نداز بیاں ہے اس میں بھی ہر جگہ بے حساب گفتگو ہوتی ہے جو کئی مرتبہ فحاشی کے زمرے میں آتی ہے۔ بہرحال یہ مخصوص اشارے اور آوازیں صرف وہی جانتا ہے جس کو بلانا مطلوب ہوتا ہے۔ شکرہے یہ بولی ترکی کے دور دراز کسی گائوں میں ہی رائج ہے اور وہاں جا کر کوئی یہ ہانک نہیں لگا سکتا کہ …؎
گوری تیرا گائوں بڑا پیارا
میں تو گیا مارا آکے یہاں رے
٭٭٭٭٭