مسلمان ممالک میں ملوکیت اور جمہوریت کے نام پر ملوکیت کے جو مناظر سامنے آرہے ہیں انکے تناظر میں حضرت امام حسینؓ کی عظیم شہادت کی حقیقت اور اہمیت مزید واضح ہوتی جارہی ہے۔جب تک اسلام کے سنہری اُصولوں کے مطابق جمہوری سیاسی نظام مستحکم اور مضبوط نہیں ہوجاتے اسلام کے عظیم شہید کا لہو ہمیں اس کی یاد دلاتا رہے گا۔سیّد امام حسینؓ کی ولادت مبارک 5شعبان 4 ہجری کو مدینہ میں ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے آپکے کان میں اذان دی (مستدرک حاکم) منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالااور آپ کیلئے دعا فرمائی۔ آپﷺ نے ساتویں دن اپنے نواسے کا نام حسینؓ رکھا۔ عقیقہ کیا اور سر کے بال منڈوا کر ان کے برابر چاندی صدقہ کی۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جبرائیل ؑ نے خبر دی کہ میرا بیٹا حسینؓ میرے بعد ’’ارض طف‘‘ میں شہید کیا جائیگا۔ جبرائیل ؑ نے مجھے اس مقام کی مٹی لاکر دی ہے اور بتایا ہے کہ یہ زمین (حسینؓ) کی شہادت گاہ بنے گی۔[طبرانی] ایک روایت کیمطابق ایک بار رسول اللہﷺ نے سیّدنا حسینؓ کے رونے کی آواز سنی تو انکی والدہ سے کہا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حسینؓ کے رونے کی آواز مجھے غمگین کرتی ہے۔ [طبرانی] حضرت حسینؓ رسول اللہﷺ کے محبوب نواسے تھے ان پر کسی کی اجارہ داری نہیں وہ سب مسلمانوں کیلئے محبوب اور محترم ہیں۔سیّدنا حسینؓ ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوکر جارہے تھے، راستے میں غرباء کی ایک جماعت نظر آئی جو زمین پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے انہوں نے کہا حضرت حسینؓ ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے۔ آپ گھوڑے سے اُترے اور غرباء کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا اور اس موقع پر فرمایا اللہ تکبّر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ سیّدنا حسینؓ نے ان غرباء کو اپنی جانب سے بھی کھانے کی دعوت دی۔ لوگوں کو یزید کے مشاغل کا علم تھا، ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اگرچہ یزید میں سخاوت، مروت، فصاحت بیانی اور شعر گوئی جیسی خوبیاں بھی تھیں مگر وہ شراب نوشی کرتا۔ ناچ گانے میں دلچسپی لیتا، اس نے اپنے محل میں ناچ گانے والیاں اور کتے رکھے ہوئے تھے اسکے بعض اعمال فاسقانہ تھے۔[البدایہ و النہایہ]
حضرت حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا۔ یزید نے حضرت حسینؓ پر بیعت کیلئے دبائو ڈالا مگر انہوں نے دبائو قبول کرنے سے انکار کیا۔ آپ نے جو عزم اختیار کیا اس پر ثابت قدم رہے اور مکہ تشریف لے گئے۔ حضرت امام حسینؓ کے نام عراق سے سینکڑوں خطوط آئے جن میں تحریر تھا کہ آپ کے ساتھ ایک لاکھ آدمی ہیں آپ جلد عراق آجائیں تاکہ لوگ آپ سے بیعت لیں۔ حضرت حسینؓ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کو حالات کا جائزہ لینے کیلئے عراق بھیجا۔ کوفہ کے لوگ مسلم بن عقیلؓ سے بڑے اخلاق سے پیش آئے اور قسم کھائی کہ اگر حضرت حسین ؓ کوفہ آجائیں تو وہ دل و جان سے آپکی مدد کرینگے۔ ایک روایت کے مطابق 18 ہزار لوگوں نے مسلم بن عقیلؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ مسلم بن عقیلؓ نے حضرت حسینؓ کو خط لکھا کہ حالات سازگار ہیں، وہ کوفہ تشریف لے آئیں۔ خط ملنے کے بعد حضرت حسینؓ کوفہ روانہ ہوئے۔ یزید نے کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیر کو معزول کردیا کیونکہ وہ حضرت حسینؓ کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ عبداللہ ابن زیاد سمیّہ کو کوفے کا گورنر مقرر کیا گیا۔[البدایہ و النہایہ]
ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حضرت حسینؓ کے پاس بھیجا اور ان کو یزید کی بیعت کا مشورہ دیا۔ حضرت حسینؓ نے فرمایا کہ مجھے واپس جانے دو، یزید کے پاس لے چلو تاکہ اس سے مکالمہ کروں اگر دونوں شرطیں منظور نہ ہوں تو ترکوں کی جانب جانے دو تاکہ انکے خلاف جہاد کرکے شہادت کا رتبہ حاصل کروں۔ حضرت حسینؓ کا پیغام ابن زیاد کو پہنچایا گیا مگر اس نے اپنے ساتھیوں کے مشورے کے بعد تینوں شرطیں مسترد کردیں اور بیعت کا مطالبہ کیا۔ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حکم دیا کہ حضرت حسینؓ اور انکے ساتھیوں کو پانی لینے سے روک دیا جائے۔[البدایہ و النہایہ] حضرت حسینؓ نے جب دیکھا کہ وہ محاصرے میں آگئے ہیں اور ابن زیاد کے ارادے درست نہیں ہیں تو آپ نے نویں محرم کو چراغ گل کردیے اور خطبہ دیا اور اپنے عزیز و اقارب اور رفقاء سے کہا کہ یزید کو صرف ان سے دشمنی ہے لہٰذا جو لوگ واپس جانا چاہیں وہ چلے جائیں۔ قافلے میں شامل سب لوگوں نے واپس جانے سے انکار کردیا اور آخری دم تک حضرت امام حسینؓ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔[البدایہ و النہایہ] سیّدنا حسینؓ نے اندھیرا اس لیے کیا تاکہ جو لوگ واپس جانا چاہیں ان کو ندامت نہ ہو۔ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ بہتر آدمی تھے۔ کربلا کے میدان میں انسانی تاریخ کا المناک سانحہ پیش آیا۔ دسویں محرم عاشورہ کے روز حضرت امام حسینؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور قرآن ہاتھ میں لے کر خطبہ ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ رسول اللہﷺ کے نواسے اور امیرالمومنین حضرت علیؓ کے فرزند ہیں۔ یزیدی فوج پر ان باتوں کا کچھ اثر نہ ہوا اور شمر نے قافلہ حسینؓ پر حملہ کردیا۔ حضرت امام حسینؓ کے رفقاء باری باری لڑتے ہوئے شہید ہوتے گئے اور آخر کار حضرت امام حسینؓ کو بھی محرم کے مہینے 61 ہجری یوم عاشور (جمعہ) کو شہید کردیا گیا اس وقت آپ کی عمر 54 سال تھی۔
قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
یزید نے وہ ظلم و ستم کئے جن کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ۔زہیر ایک سچا مسلمان ثابت ہوا۔ اس نے امام حسین ؓ کے پیغام کو سنا تو بیوی بچوں کو چھوڑ کر قافلہ حسینؓ میں شامل ہو گیا۔ کربلا کے میدان میں جب حسینؓ پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی تو زہیر حسینؓ کی ڈھال بن گئے اور شہید ہو گئے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے فرمایا۔’’جس نے بھی حسینؓ کو شہید کیا انکے قتل میں مدد کی یا انکے قتل سے راضی ہوا اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ۔
شہادت حسینؓ کا سبق یہ ہے کہ نیکی کی تبلیغ کرنا اور برائی سے روکنا ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔ملوکیت اور آمریت قرآن اور سنت کے پیغام کے منافی نظام ہیں لہذا ان کیخلاف جدوجہد جاری رکھنابھی حسینیت ہے۔ جھوٹ اور سچ کی جنگ میں افرادی قلت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ سچ کے علم بردار اگر تعداد میں کم بھی ہوں تو جھوٹ کا مقابلہ ان کا فرض ہے۔ جنگ بدر اور جنگ کربلا میں یہ بھی ایک قدر مشترک ہے کہ تعداد کی کمی حق کے راستے میں حائل نہ ہوئی۔ حضرت امام حسینؓ کا یزید کے خلاف جہاد مذہبی تعصب یا فرقہ واریت کی بناء پر نہ تھا بلکہ اسلام کے سنہری اُصولوں کے تحفظ کیلئے تھا۔ مسلمان کردار کے بحران سے گزررہے ہیں۔ اللہ کے پیارے نبیﷺ خلفائے راشدین اور امام حسینؓ نے عملی کردار کے جو روشن نمونے پیش کیے ہم ان پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ فرقہ واریت کے شکار لوگ اگر قرآن پاک کی آیات آل عمران نمبر 102,105 الانعام 159 الشوریٰ 13 المومنون 52 الانبیاء 91 کا ترجمے کے ساتھ مطالعہ کرلیں تو وہ لازمی طور پر اللہ کے حکم کے مطابق اپنی اصلاح کرنے پر مجبور ہوجائیں گے اور ان کی عاقبت بھی سنور جائے گی۔
جب کبھی ضمیر کے سودے کی بات ہو
ڈٹ جائو تم حسینؓ کے انکار کی طرح
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024