پاکستان دھیرے دھیرے قحط کی طرف بڑھ رہا ہے اذیت ناک موت سے دوچار ہونے والا ہے۔ ہماری پانی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت گذشتہ تین سال میں آدھی سے بھی کم ہو چکی ہے کہ دریاوں میں پانی موجود نہیں۔ صرف 7 سال بعد 2025 میں چاروں طرف قحط کا سماں ہوگا جب فصلوں کو پانی نہیں ملے گا پینے کا پانی دستیاب نہیں ہوگا۔ کراچی جیسے مناظر سارے ملک میں دیکھنے کو ملیں گے اگراب بھی آواز نہیں اٹھائیں گے تو تشنہ لب ‘سسکتی موت تو ویسے ہی ہمارا مقدر بن چکی ہے جو دھیرے دھیرے پاکستان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مودی واشگاف اعلان کر رہا ہے کہ ’’سندھو ندی کا پانی ھمارا ہے‘‘ وہ شیر دریا‘ اباسین اور دریائے سندھ کے ناموں والے عظیم دریاکے پانیوں پرزبردستی قبضہ کرنے کا عزم ظاہر کر رہے تھے جو پاکستان پر آبی جنگ مسلط کرنے کاباضابطہ فیصلہ ہے۔
جالندھر میں 27 جنوری2017 جمعہ کو انتخابی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ پنجاب کے کسانوں کو درپیش پانی کی قلت کے مسئلہ کو ختم کرنے کے لئے ریاست پنجاب کو دریائے سندھ کا پانی دیا جائے گا۔ نریندر مودی نے کہا کہ بھارتی پنجاب کا تمام انحصار زراعت پر ہے اور بھارت کا بچہ بچہ پنجاب کی پیدا کی ہوئی گندم کھاتا ہے یہاں کے کسانوں کو پانی کی سخت ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کے مسئلہ کو دیکھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کو جانے والا دریائے سندھ کا پانی روک کر پنجاب کی سرزمین کو دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سندھو ندی کا پانی اب پنجابی کسان استعمال میں لا کر خوشحالی لائیں گے، اپنی زمینوں کو سر سبز کردیں گے
قبل ازیں 26 نومبر 2016ء کو بٹھنڈہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا تھا کہ ہم پاکستان کو پیاسا، بوند بوند کیلئے ترسا کر ماریں گے، ہم اپنے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی پاکستان نہیں جانے دیں گے۔ مودی نے پاکستان اور ہمارے حکمرانوں پر گہری چوٹ کرتے ہوئے کہا ’’ویسے بھی یہ پانی کون سا تمہارے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے۔ یہ تو پاکستان ہوتا ہوا سمندر میں جاگرتا ہے۔ یہ بھارت کے کام آتا ہے نہ ہی پاکستان کے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے‘‘۔ مودی کالا باغ ڈیم نہ بنانے پر ہمارا مذاق اڑا رہے تھے کہ اگر ان تین دریائوں کا پانی پاکستان کو مل بھی جائے تو یہ بحرہند میں پہنچ کر ضائع ہو جائے گا کیونکہ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ قبل ازیں جناب مودی لال قلعہ کی دہلیز پر کھڑے ہوکر یہ چتاونی بھی دے چکے ہیں ’’خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے ہیں‘‘۔ ہم پاکستان کا پانی بند کرکے اسے صحرا میں بدل دیں گے۔ مودی بٹھنڈہ میں پاکستان کے خلاف بڑھک بازی کرکے بھول نہیں گئے بلکہ انہوں نے جنگی بنیادوں پر 17دسمبر 2016ئ کو اپنے پرنسپل سیکرٹری نریپندرا مشراکی سربراہی میں اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی جس میں پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کا عزم کھلے بندوں ظاہر کرنے والے قومی سلامتی کے مشیر اجیت کمار ڈوول، سکریٹری خارجہ امور جے شنکر اورخزانہ ماحولیات، پانی و بجلی کے سیکرٹریوں و رکن نامزد کیا گیا تھا جبکہ مقبوضہ کشمیر اور پنجاب کے چیف سیکرٹری بطور مبصر شامل تھے جس نے دریائے سندھ کا پانی روکنے اور بھارتی کسانوں کو دینے کا فیصلہ کرکے پاکستان پر آبی جنگ مسلط کرنے کی تجویز دی جسے مودی نے منظور کرلیا جس کے نتائج جنوبی ایشیا میں بسنے والے ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کے لئے بہت ہولناک ہوں گے۔اس معاملے میں چین بھی فریق ہے کہ برصغیر کی زمینوں میں ہریالی اور شادابی لانے والے تمام دریائوںکا منبع تبت ہے۔ چین دریائے برہم پترا پر ڈیم بنا کر بنگلادیش اور بھارت جو سیراب کرنے والے دریا کا رخ تبدیل کرنے کے منصوبے پر کام شروع کرنے والا ہے ’’آنے والے دنوں میں‘ پانی خون سے مہنگا ہو گا اور تیسری عالمی جنگ پانی کے تنازعات کی وجہ سے ہو گی‘‘۔بھارت نے طبل جنگ بجا دیا تھا افسوس صد افسوس پاکستانی ذرائع ابلاغ ‘ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا’ دونوں نے جالندھر میں مودی کے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کے بارے میں ایک لفظ شائع یا نشر نہیں کیاتھا جبکہ مودی کی وہ زہریلی تقریر بھی You Tube پر آسانی سے دستیاب ہے جس سے جنرل شاہد عزیز کا دعویٰ درست دکھائی دیتا ہے اور یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بھارت نے بھاری سرمایہ کاری کرکے ہمارے اعصابی مراکز اور ذرائع ابلاغ تک موثر رسائی حاصل کر لی ہے جس کا واضح مظہر دریائے سندھ کے پانی پر قبضہ کرنے کی خبر کا ’’اجتماعی‘‘ out Black ہے کہ بھارتی شاہ دماغ یہ صلاحیت حاصل کرچکے ہیں کہ وہ جس خبر کو چاہیں پاکستان میں شائع یا نشر نہ ہونے دیں۔
’’پاکستان کو صحرا بنانے کا بھارتی فلسفہ کچھ نیا نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے ہندو آبی ماہرین یہی باتیں اور دعوے کرنا شروع ہو گئے تھے جن کا ذکر ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے ممتاز ایڈیٹر مولوی سعید نے اپنی لازوال سوانح حیات‘ آہنگ بازگشت‘‘ میں بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ بے مثل نثرنگار مولوی سعید نے ساری زندگی انگریزی صحافت کی تھی لیکن اپنی آب بیتی اردو میں تحریر کی۔ کاش کوئی اس آب بیتی کو پاکستان کی تمام درسگاہوں کی لائبریریوں تک پہنچا دے۔ مولوی سعید کے بچپن میں متحدہ پنجاب کے نہری نظام کی نقش گری ہو رہی تھی۔ ان کے والد محکمہ انہار میں جونیئر انجینئر تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب پاکستان کا قیام ناگزیر ہوگیا تو میرے والد کے ایک دوست ہندو انجینئر نے رسمی دوستانہ بات چیت کے دوران کہا کہ آپ کیسا ملک بنانے جا رہے ہیں۔ ہم جب چاہیں گے فلاں ہیڈ ورکس سے تمہارا پانی بند کرکے گلا دبا دیں گے۔ ’’آہنگ بازگشت‘‘ تمام اخبارات کے دفتر میں بھی موجود ہونی چاہئے کہ یہ پرشکوہ آب بیتی اصل میں پاکستان اور تحریک پاکستان کی شاندار کہانی ہے۔ میرے مربی و محترم مہاگرو انور عزیز چودھری اس کتاب کے ایسے عاشق زار ہوئے کہ لاکھوں روپے کی فوٹوکاپیاں تقسیم کر چکے ہیں۔اب مودی اسی پرانی کہانی میں حقیقت کا رنگ بھر کر دریائے سندھ پر قبضہ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں‘‘ جو واضح طور پر پاکستان کے خلاف اعلان جنگ ہے۔اب کون پاکستان کے آبی وسائل کادفاع اور تحفظ کرے گا۔ کون ہے جو میرے شیر دریا کے پانیوں کے مودی کی ناپاک دست برد سے بچائے گا۔ کون ہے جو سندھ ندی کا وارث بن کر سامنے آئے گا۔ ہے کوئی جو مودی کے پاکستان کی شہ رگ کی طرف بڑھتے ہاتھ روکے! ہے کوئی جو تاریخ کا دھارا پاکستان کے حق میں موڑ دے۔ (جاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024