غرض و غائت صبح کو میٹنگ ہوئی۔ پہلے پنڈت جی نے حیرت کا اظہار کیا۔بولے ، ٹھاکر صاحب اس خطرناک جنگل میں آپ گھوڑے پر سفر کیسے کر لیتے ہیں ؟ بولا ، تقسیم سے قبل چیف کنزرویٹر کیلئے ایک ہاتھی مختص تھا۔ اب اس کی اجازت نہیں ہے حالانکہ قریبی ریاست سے ایک ہاتھی نہایت سستے داموں بک رہا ہے۔ پنڈت جی نے Seeing is Beleiving(عیاں راچہ بیاں) کے مصداق فوراً منظوری دے دی۔ اسکے بعد انہوں نے وزیراعلیٰ کے احکامات برائے بچت! جو نظر بھی آئے ! ٹھاکر بولا ۔ ایک تو میں ہوں مجھے فارغ کر دیں ! تو پھر محکمہ کیسے چلے گا؟ پنڈت جی اسے قریباً ڈانٹتے ہوئے بولے۔ میرے نیچے دو ایڈیشنل کنزرویٹر ہیں اور نیچے انکے ماتحت چار ڈپٹی سیکرٹری ہیں اور نیچے آٹھ سیکشن آفیسر ہیں ، سولہ اسسٹنٹ ہیں ، بیس کلرک ہیں اور نیچے ایک بلی ہے جسکے دودھ پر ماہانہ ساٹھ روپے خرچ اٹھتا ہے۔بلی کیوں بھرتی کی ہے؟ پنڈت جی حیران ہوئے ۔بولا جنگلی چوہے ریکارڈ تلف کر دیتے ہیںاسکی نگرانی کیلئے بلی پال رکھی ہے ۔ یہ سننا تھا کہ وزیر موصوف کے چہرے پر غیظ و غضب کے آثارمترشح ہوئے ۔وجود بید مجنوں کی شاخ کی طرح لرزنے لگا بولے، بلی ڈسمس ۔ ٹھاکر صاحب ! اتنے میں میائوں کی آواز آئی۔ بلی حیرت سے وزیر کو تک رہی تھی۔‘‘ یہ بھولا بسرا واقعہ ہمیں اس لئے یاد آیا ہے کہ ہماری نئی حکومت نے بھی بچت کے سلسلے میں اسی قسم کے حکیمانہ اقدامات کئے ہیں ۔وزیراعظم صاحب نے اعلان فرمایا ہے کہ بچت‘ سادگی اور کفایت شعاری انکی حکومت کی پالیسی کا ’’کارنر اسٹون‘‘ ہے۔ ابتداً انہوں نے اپنے آپ سے کی ہے۔ وزیراعظم ہائوس میں رہنے کی بجائے خان صاحب نے اسی احاطے میں ملٹری سیکرٹری کے چار کنال کے مکان میں رہنا پسند فرمایا ہے۔
بقول انکے اس وقت وزیراعظم ہائوس میں پانچ سو کے قریب ملازمین ہیں۔ مالی‘ باورچی‘ چوکیدار‘ سکیورٹی گارڈ‘ ٹیکنیشنز‘ ہیلی کاپٹروں کا عملہ کسی کو فارغ نہیں کیا جائیگا کیونکہ یہ غریب آدمیوں کی نوکری کا معاملہ ہے۔ ہائوس کی مینٹیننس بھی اسی طرح رہے گی کیونکہ ایک عظیم الشان عمارت کو کھنڈروں میں تبدیل تو نہیں کیا جا سکتا۔ جب باہر سے مہمان آتے ہیں تو انکی دعوت کا اہتمام بھی صرف وزیراعظم ہائوس میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ پھر فرمایاہے کہ وہ صرف دو بلٹ پروف گاڑیاں استعمال کرینگے‘ باقی ماندہ دس سالہ پرانی گاڑیوں کو نیلام کر دیا جائیگا۔ سینڈوچز کی جگہ بسکٹ استعمال ہونگے۔ پروٹوکول نہیں لیا جائیگا۔ البتہ بھرپور سکیورٹی سے دستبردار نہیں ہونگے۔ ریاست مدینہ کے علاوہ سکینڈے نیوین ماڈل کو اپنایا جائے گا۔
آئیے! ان اقدامات کا نمایاں مقصدیت کے ساتھ جائزہ لیں۔ جس احاطے میں وزیراعظم رہتا ہو‘ جہاں فوج اور پولیس کا عملہ ہو۔ جو مکان پارلیمنٹ ہائوس‘ قصر صدارت اور سپریم کورٹ کو Over Look کرتا ہو‘ وہاں پر کوئی پرائیویٹ ادارہ کام نہیں کر سکتا۔ اب عملاً صورتحال یہ ہے کہ ایک کی بجائے دو وزیراعظم ہائوس چلائے جا رہے ہیں۔ ایک وہ جس میں خان صاحب رہتے ہیں اور دوسرا وہ جو ان کی بالآخر آمد کا منتظر ہے۔ اسلام آباد سے بنی گالا تک ہیلی کاپٹر استعمال ہوتے ہیں کیونکہ بقول وزیراطلاعات ان پر اٹھتی ہوئی لاگت چنگ چی رکشہ سے بھی کم ہے۔ اگر اس مدقوق منطق کو مان لیا جائے تو پھر فارن ٹریول میں کیا حرج ہے؟ جہاز تو پہلے ہی خریدا جاچکا ہے۔ اگرنہ اڑایا جائے تو بھی اسکی کم سے کم فلائٹ ضروری ہے۔ گویا خان صاحب نے امریکہ یا برطانیہ جاناہو تو کمرشل فلائٹ کی نسبت بہت کم خرچ اٹھے گا۔ انکی دیکھا دیکھی گورنروں نے بھی اسی قسم کے اعلانات کر دیئے ہیں۔ رہیں گے گھر میں‘ دفتر گورنر ہائوس میں سجائیں گے۔ یعنی دو گورنر ہائوس بیک وقت چلائے جائینگے۔ گورنر جس علاقے میں رہے گا‘ اسکے مکین ایک عذاب مسلسل میں مبتلا ہونگے۔ نگران وزیراعلیٰ حسن عسکری‘ عسکری 10 میں رہتے تھے۔ بقول ہمارے دوست بریگیڈیئر بابر صاحب‘ ہمسایوں کو نہ رات کو سکون ملتاتھا نہ دن چین سے گزرتا تھا۔ ہر وقت پولیس اہلکار خواتین کو گھورتے رہتے۔ تو گویا ان اقدامات سے پنجابی محاورے کیمطابق ’’بازوئوں سے کان لمبے ہو جائینگے۔‘‘ سکینڈے نیوین ماڈل کیا ہے؟ میں بارہ سال تک مسلسل پاکستانیوں کو لیکچر دینے ناروے جاتا رہا۔ وہاں کا اس وقت کا وزیراعظم شیل بوندے وک اکثر اپنی گاڑی خود چلاتا تھا۔ مہینے میں ایک دن جوتے پالش کرتا‘ ڈنمارک کے وزیر سائیکلوں پر دفتر جاتے ہیں۔ ملکہ سبزی کا تھیلا اٹھا کر خود مارکیٹ میں سبزی خریدنے جاتی ہے۔ سویڈن کا وزیراعظم فلم دیکھ کر سینما ہائوس سے نکلا تو کسی نے اسے گولی مار دی۔ معاملہ پارلیمنٹ تک جا پہنچا کہ وزیراعظم کو سکیورٹی دی جائے۔ مقننہ نے انکار کر دیا۔ بڑاعجب استدلال تھا۔ ہر وزیراعظم کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسے اس قسم کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
حکومت کو چاہئے کہ بلیاں ڈسمس کرنے کی بجائے اُس معاشی طوفان کی طرف توجہ فرمائے جو ایک ناگوار حقیقت کی طرح سر پر منڈلا رہا ہے۔ (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024