خزیراعظم ہائوس یونیورسٹی‘ گورنرز کی رہائش گاہیں یاگورنر ہائوس میں میوزیم استغفراللہ کہا جائے۔ یا لاحول ولا قوۃ پڑھا جائے۔ وزیراعظم اور انکی کابینہ پر سو دن کا اتنا دبائو کہ بغیر کسی منصوبہ بندی بغیر کسی قومی ضرورت اور بغیر کسی معقول وجہ کے انتہائی سطحی نعرے یا سوچ پر اتنا بڑا فیصلہ جسے اگر احمقانہ کہنے سے گریز کیا جائے تو بھی عاجلانہ کہا جائیگا اور عجلت میں کئے جانیوالے فیصلے افراد کے تو ہو سکتے ہیں، قوموں کے نہیں، جن کے منفی اثرات صرف افراد کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ کسی وزیر نے بھی وزیراعظم کو یہ فیصلہ نہ کرنے کا نہیں کہا یا اسکے کرنے سے ہونیوالی سبکی کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ مخالفین کے ہاتھ ایسا ایشو دیدیا جس کو اگلیں یا نگلیں دونوں صورتوں میں اس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کسی بچہ سقہ حکومت کا فیصلہ ہو سکتا ہے، پانچ سال کیلئے منتخب ہونیوالی کسی جمہوری حکومت کا نہیں۔ کاش! ایک وزیر ہی جرأت کرکے یہ کہہ دیتا کہ جناب !گورنر ہائوس کو میوزیم بنانے کے اعلان سے پہلے یہ تو بتایئے کہ میوزیم میں رکھنا کیا ہے۔ آپکے پاس میوزیم میں رکھنے کیلئے تو کچھ بھی نہیں۔اس نوعیت کا جو سمتھ سونین میوزیم واشنگٹن میں دیکھا جا سکتا ہے، اس طرح کا جو ’’ٹاپ کپی‘‘ پیلس استنبول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ عمران خان اتنا تو جانتے ہیں میوزیم کوئی فرنیچر کی دکان نہیں کہ خریدا اور لاکر سجا دیا۔ واشنگٹن سمتھ سونین میوزیم میں چودہ عجائب گھر ہیں۔جن کی سیر کیلئے ایک دن بہت ہی ناکافی ثابت ہوتا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ نیشنل مال پر واقع چودہ میں سے نو عجائب گھر کی سیر بھی ایک دن میں ممکن نہیں۔ یہ میوزیم ڈیڑھ پونے دو سوسال سے قائم ہیں۔ آرٹ گیلری میں اگر دنیا بھر کے آرٹ کے نمونے ہیں تو نیشنل ایئر اینڈ سپیس میوزیم میں چاند پر قدم رکھنے والے آر مسٹرانگ کی چاند گاڑی سمیت مختلف راکٹ اور ہوائی جہاز بے حس مشینوں کی طرح بور نہیں کرتے۔ نیچرل ہسٹری‘ کا میوزیم دیکھ کر انسانوں اور جانوروں کی تخلیق و افزائش کے مختلف مراحل کا ادراک ہوتا ہے۔ کس کس بات کا تذکرہ کریں۔ امریکن آرٹ پورٹریٹ گیلری یر امریکی آرٹ سیکلر گیلری کا۔ استنبول کے میوزیم میں جو ٹاپ کپی کے ساتھ اب تک پیلس کہلاتا ہے‘ نبی کریمؐ کے موئے مبارک، پانی پینے کیلئے استعمال ہونیوالے پیالے، حضرت موسیٰؑ کے عصااور حضرت علیؓ کے لباس غرضیکہ کن کن تبرکات کا بندہ ذکر کرے۔
آپکے پلے کیا ہے جو گورنر ہائوس کو میوزیم بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔نہایت بے مقصد فیصلہ وغ، ایسا فیصلہ جو سوائے خجالت کے کچھ نہیں دیگا جس سے قوم کا ہرگز فائدہ نہیں۔ یہ سادگی نہیں اثاثوں کی حفاظت نہ کرنے کی صلاحیت کی کمی ہے یا موجودہ وسائل کو بہتر انداز سے استعمال کرنے کے شعور کا فقدان ہے۔ خود اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ جن چار گورنر ہائوسز کو میوزیم بنانے کا عاجلانہ فیصلہ اور اس سے بھی زیادہ عجلت سے اس پر عمل کیا گیا ہے ان میں سے ایک میں بھی کوئی ڈھنگ کا میوزیم بن سکتا ہے۔ مالی بدحالی میں گھری قوم ایک عاجلانہ فیصلے کی اتنی بڑی قیمت کیسے ادا کریگی‘ کیوں ادا کریگی۔
جناب عالی! یہ گورنر ہائوس اس وقت بھی موجود تھے جب پاکستان ایک آزاد مملکت کے طورپر دنیا کے نقشہ پر ابھرا تھا۔ جب قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل آف پاکستان بنے تھے۔ قائداعظم نے تو کسی گورنر ہائوس بارے اتنی ناپسندیدگی نہیں دکھائی تھی یا میوزیم کو اپنی قوم کیلئے اتنا اہم نہیں سمجھا تھا کہ بے وسیلہ قوم کا پیسہ اگر میوزیم کی نئی عمارت کیلئے خرچ نہیںکر سکتے تو وقتی طورپر گورنر ہائوس کو میوزیم بنا دیں۔ پاکستان کے سنبھل جانے کے بعد لیاقت علی خان اور قائداعظم کی زیرتربیت رہنے والے سیاسی لیڈروں میں سے کسی نے بھی اسکی ضرورت محسوس نہ کی۔ یوں لگتا ہے عمران خان ،ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ری ایکشنری ہوکر سوچنے لگے ہیں جب انہوں نے اپنے چہیتے وزیرخزانہ اور بعدازاں پارٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مبشر حسن کے کہنے پر یا بہکاوے میں آکر صنعتوںکو قومیانے کا اعلان کر دیا اور پھر فلورملوںتک کو قومی تحویل میں لیکر اس ملک میں ایسا انتشار پیدا کر دیا کہ ساری صنعتی ترقی رک گئی۔ ایوب خان کا صنعتی ترقی کا سنہری دور ختم ہو گیا۔ ٹرسٹ کے اخبارات اور اکلوتا سرکاری ٹیلیویژن اور ریڈیو بھٹو کی اس حماقت کی توصیف کرنے لگے۔ شاید پاکستان پروگریسوز میں کام کرنے کی وجہ سے مجھ سے بھی سینئر صحافی عبداللہ ملک کے ساتھ ریڈیو کے ایک پروگرام میں بلایا گیا؟ براہ راست نشر ہو رہا تھا۔ میں نے فلور ملوں کو قومیانے کی دلائل کے ساتھ مخالف کر دی۔ چونکہ یہ فیصلہ عبداللہ ملک کے سیاسی مسلک کے مطابق تھا اس لئے وہ تو اسکی حمایت کرنے پر مجبور تھے مگر میری دلیل کے مقابلے میں جب کوئی کمزور دلیل بھی پیش نہ کر سکے تو انہوںنے اتنا کہہ کر اپنی قابلیت اورصحافتی قد کاٹھ کا بھرم رکھ لیا کہ ہر شخص کو سوچنے سمجھنے اور اظہار کی آزادی ہے۔ ریڈیو والوں نے میرا چیک جو بہت ہی معمولی رقم کا تھا روک لیا۔ عبداللہ ملک صاحب کو چیک مل گیا۔ فلور ملوں کو واپس کرنا پڑا میں نے ریڈیو کے ارباب بست و کشاد کو خط لکھ دیا کہ میری بات مان لی گئی ہے۔ اب میرا چیک بھجوا دیجئے۔ حکومت نے فلور ملوں کو قومیانے کی غلطی تسلیم کر لی اور ریڈیو نے چیک نہ بھیجنے کی۔ اسکے بعد جب قومیائے گئے اداروں میں مزدوروں اور بالخصوص انکے لیڈروں نے اودھم مچایا اور ہڑتالیں شروع کر دیں اور ناجائز مطالبات سے ان صنعتوں کو مفلوج کر دیا تو بھٹو صاحب کی حکومت نے ان مزدور لیڈروں کی تربیت کیلئے مجھے اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے پروفیسر ظہیراحمد بٹ کو مختلف صنعتی یونٹوں میں جا کر مزدور لیڈروں اور سپروائزری سٹاف کو لیکچر دینے کیلئے بہت معقول مشاہرہ پر انگیج کر لیا۔ یہ تجربہ بہت اچھا ثابت ہوا، نہ صرف ہمارے لئے بلکہ انڈسٹری اور حکومت کیلئے بھی۔ میں چونکہ روزنامہ امروز میں کامرس ایڈیٹر کے طورپر کام کر رہا تھا‘ اس لئے لاہور اور اسکے مضافات میں قومیائے جانے والے صنعتی یونٹوں کے بعد اسے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کیلئے جاری نہ رکھ سکا اورپروفیسر ظہیر احمد بٹ صاحب یہ کام کرتے رہے۔ یہ سارا قصہ بھٹو صاحب کے ایک عاجلانہ قدم کی وجہ سے یادآیا۔ اگرچہ انہوں نے ڈاکٹر مبشر حسن کواس غلط فیصلہ کی وجہ سے بعد میں وزارت سے ہٹا دیا مگر اس سے ہونیوالے قومی نقصان کا مداوا نہ کر سکے۔
گاڑیاں بنانے والے پاکستانی اداروں میں قیمتیں گھٹانے کی دوڑ
Mar 16, 2024 | 13:40