سب سے پہلے بیگم کلثوم نواز کے بارے میں کچھ الفاظ۔ انکی وفات کے بعد کافی کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ ایک ساازشی اور سازشی تھیوریز سے بھرے معاشرے میں انکی بیماری پر جس طرح باتیں بنائی گئیں خاص طور پر دانشور سیاستدان چوہدری اعتزاز احسن اور ان جیسے کئی اور لوگوں نے جس طرح اور جس انداز سے بیگم کلثوم نواز کی بیماری کا نقشہ پاکستانی عوام کے سامنے پیش کیا اس نے خود ان لوگوں کی شخصیت کا اور انکی دانشوری کا بھرم کھول کے رکھ دیا۔
مشرقی معاشروں میں ، پاکستان میں ، خواتین نے سیاست میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہر سطح پر۔ لیکن قومی سطح کی سیاست میں ضرورت پڑنے پر جس طرح پاکستان میں خواتین نے لبیک کہا ہے وہ ہماری قابل رشک تاریخ کا حصہ ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کی آمریت کو للکارا کیونکہ وہی وقت کی ضرورت تھی۔ پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے۔ قائد اعظم کے پاکستان کو بچانے کے لیے۔ وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ پاکستان نہ بچ سکا۔ بچا کچھا پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ آیا۔ بھٹوصاحب کی شخصیت سے ہزار اختلاف اپنی جگہ ، انکی کارکردگی پر عدم اطمینان بھی قابل فہم۔ لیکن جس طرح سے انکو ہٹایا گیا اور انصاف کا نام لے کر جس طرح انصاف کا خون کیا گیا۔ انصاف دینے والوں کے ہاتھوں ، اسکے بعد ایک بار پھر سامنے آنے والی شخصیت بھٹو صاحب کے کوئی دیرینہ رفیق نہیں تھے ، انکے سابق وزرائ اور سفیران نہیں تھے۔ بلکہ انکی رفیقہ حیات بیگم نصرت بھٹو نے قومی سیاست میں ، ضرورت پڑنے پر، ایک لازوال کردار ادا کیا۔ گو جنرل ضیاالحق کی آمریت کے سامنے انکی نہ چل سکی ، وہ اپنے شوہر کو نہ بچا سکیں۔ آمریت بھی جمی رہی۔ لیکن جس طرح محترمہ فاطمہ جناح نے ایک آمر کو للکار کر اسکی آمریت کو کمزورر کیا تھا اسی طرح محترمہ نصرت بھٹو نے بھی ایک طاقتور آمر کی تباہی کی شروعات ضرور کردیں۔ پھر اسکے بعد انکی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو نے جمہوریت کی بحالی کا علم سنبھال کر اور جنرل ضیاالحق کی نیند اڑا کر پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور ترقی کے لیے خواتین کے انتہائی اہم کردار کو اجاگر کیا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی بیگم کلثوم نواز بھی تھیں۔ گو قدرے محدود انداز میں ، مگر انہوں نے جس طرح نواز شریف کا ساتھ دیتے ہوئے ایک اور آمر جنرل مشرف کے ساتھ جس انداز سے مقابلہ کیا اسے تقدیر کا جبر کہئے یا حالات کی ستم ظریفی ، اس کردار نے انہیں پاکستان کی عالی قدر خواتین کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان خواتین سے اختلاف رکھنے والے پاکستان میں بہت ہیں اور یہ انکا حق ہے لیکن ان خواتین کی قربانیاں اور انکی انتھک محنت ہم سب کے لیے قابل فخر ہے۔
عمران خان کی حکومت اپنے اخلاص کے باوجود ناتجربہ کاری کا ایک چلتا پھرتا نمونہ ہے۔ وزیراعظم اور انکے ساتھیوں کو اپنی ذمہ داری اور مقام کی وسعت کا غالباً ابتک درست اندازہ نہیں ہو سکا۔ وزیر اعظم کے منہ سے وزیر اعظم ہاؤس کی چار بھینسوں کی نیلامی کا ذکر کچھ بھلا نہیں لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمرانوں کا شاہانہ طرز زندگی قومی خزانے پر ایک بوجھ ہے۔ اور قابل نفرت بھی۔ لیکن پاکستان کی اصل بربادی کی وجہ کرپشن ہے جیسا کہ پی ٹی آئی اور خود عمران خان اسکا اکثر ذکر کرتے رہے ہیں۔ یہ وہ اربوں کھربوں روپیے کا معاملہ ہے جس نے پاکستان کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کیا یے۔ چند کروڑ روپے بچا کر شاہانہ طرز زندگی کو نوابانہ میں تو تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن پاکستان کو خوشحال نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ اسکے لیے وہی کچھ کرنا پڑے گا جسکا وعدہ عمران خان نے کیا تھا۔ کرپشن روکو اور کرپشن کا پیسہ واپس لاؤ۔ لیکن عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی صرف مقبول نعروں کا سہارا لیا ہے۔ چیف جسٹس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اچانک ڈیم بنانے کے لیے چندے جمع کرنے پر لگ گئے۔ یہاں ڈیموں کی اہمیت سے انکار ہر گز نہیں۔ عمران خان نے خود اپنی تقریر میں فرمایا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ڈیم کے لیے چندے سے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوگا۔ زر مبادلہ بڑھانے کا یہ ایک دلچسپ طریقہ ہے جو کہ اس سے پہلے کسی کے ذہن میں نہ آیا ۔ یہ زرمبادلہ کیا عام برامدات کے لیے بھی استعمال ہوگا ؟ تو پھر ڈیم کا کیا ہوگا ؟ کیا یہ سارے کا سارا ڈیم پاکستانی روپیہ سے بنے گا ؟ اسکے علاوہ وزیر اعظم کی یہ توقع سادہ لوحی پر مبنی ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی اتنی استعداد ہے کہ وہ اپنے معمول کی رقم ملک بھیجنے کے علاوہ ہزاروں ڈالر چندہ مہم میں بھی بھیج سکتے ہیں۔ یہ اعلان کرنے سے پہلے اپنے سفارت خانوں کے ذریعے بیرون ملک پاکستانیوں کی استعداد اور ارادوں کی ایک اسٹدی بھی کروالی جاتی تو بہتر ہوتا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ جنرل ایوب خان کو امریکہ سے ڈالر لینے کے لیے سیٹو اور سینٹو مل گئے تھے۔ اڈے دینے پڑے لیکن ڈالر بھی خوب ملے۔ یحییٰ خان کو تھوڑی بہت مدد چین سے دوستی کروانے پر مل گئی تھی۔ جنرل ضیا الحق کے ہاتھ تو افغان جہاد لگ گیا اور یوں ڈالر کی ریل پیل ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف نے گیارہ ستمبر کے سانحہ کو استعمال کیا اور کئی پاکستانیوں کو بیچ کربھی خوب ڈالر وصول کیے ۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک کم و بیش جاری رہا۔ ٹرمپ کے امریکہ میں معاملات مختلف ہوگئے لہذا چندے کی مہم !
عمران خان کے ایک اور دوست پاکستان کے چیف جسٹس بھی ہیں۔ ڈیم ضرور بنائیے۔ پانی کا مسئلہ ضرور حل کیجیے۔ لیکن یہ کس قانون اور آئین کے تحت عدلیہ کے ذمرے میں آگیا۔ آجکل اللہ نظر بد سے بچائے کہا جا رہا ہے کہ تمام ادارے ایک صفحہ پر ہیں بلکہ بقول وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری کے ایک ہی کتاب کا ورد بھی کررہے ہیں۔ تو کیا فدوی یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ ان ہی میں سے کچھ اداروں سے تعلق رکھنے والے حضرات مطلق العنان حکمراں رہے ہیں اور اپنی ایک جنبش ابرو سے بات منوالیاکرتے تھے۔ بلکہ اسکے لیے انہیں حکمراں ہونے کے باضابطہ ٹائٹل کی بھی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ ہماری تاریخ دیکھ لیجیے۔ ایوب خان نے صرف فوج کے سربراہ ہوتے ہوئے کس طرح بڑے بڑے فیصلے کروائے۔ جنرل اسلم بیگ، جنرل آصف نواز، جنرل عبدالوحید کاکڑ ، جنرل پرویزمشرف ، جنرل کیانی ، جنرل راحیل شریف اور اب۔۔۔ ظاہر ہے کہ یہاں اتنی جگہ نہیں کہ ان حضرات کے تمام کارناموں کی تفصیل بھی بیان کی جائے۔ لیکن ڈیم کیوں نہیں بنائے گئے ؟ یہ اچانک ایک چیف جسٹس کو اسکا خیال کیسے آگیا؟ کیا جنرل باجوہ سے پہلے یہ تمام جرنیل اس وقت یہ صفحات نہیں پڑھ رہے تھے؟ کیا یہ صفحات اس کتاب میں شامل نہیں تھے ؟ جنرل مشرف کو وردی میں کئی بار صدر منتخب کرانے کا وعدہ اور دعویٰ کرنے والے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے یہ پٹی اس وقت کے اپنے محبی اور مقربی کو کیوں نہیں پڑھائی ؟ یہ سارا وبال اچانک بیچارے عمران خان پر کیوں ڈال دیا ؟ اسکو کچھ اپنے وعدوں پر بھی تو کام کرنے دو یارو ! سندھ کے والی و وارث آصف علی ذرداری سے بھی تو کچھ پیسے لانے کی بات کرنے دو۔ یا صرف بات ایان علی تک ہی اٹکی رہے گی۔ اور تو اور اب چیف جسٹس نے آرٹیکل چھ کی تشریح میں ڈیم کی مخالفت کو بھی شامل کرلیا ہے۔ یعنی اب عدلیہ اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ موصوف نے مقننہ کی ذمہ داریاں بھی اپنے ہاتھوں میں لے لی ہیں۔
تم ہی قاتل تم ہی مخبر تم ہی منصف ٹہرے !
گاڑیاں بنانے والے پاکستانی اداروں میں قیمتیں گھٹانے کی دوڑ
Mar 16, 2024 | 13:40