میں جب بھی کالم لکھنے بیٹھتا ہوں تو بسم اللہ کے بعد اِنّا لِلّہِ وَ اِنّا اَِلیہِ راجِعْون پڑھنے کے ساتھ کالم کا آغاز کرتا ہوں۔ حسب عادت آج بھی ابتدا اسی طرح کی۔ اس میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں کہ کسی توحید پرست کو جب بھی کسی راہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ یا تو اپنے رَب سے ہمکلام ہوتا ہے یا پھر خود سے مخاطب ہوتا ہے۔ آج کالم لکھتے ہولئے راقم بھی اپنے رَب سے کچھ یوں مخاطب ہوا کہ اے میرے رَب!آج تیری توحید کے حوالے سے جن ہستیوں اور انکی جن قربانی اور ایثار کا ذکر کرنے چلا ہوں اْس پر مجھے پیر مہر علی شاہ صاحب کے عِجز بھرے وہ کلمات یاد آنے لگے ہیں" کتھے مہر علی کتھے تیری ثنائ گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں" کہاں تیری توحید کے نشے میں سرشار آلِ رسول کی قیادت کرتا وہ نواسہ رسول کہ جسکی سواری خود وہ ہستی ہو جنکے لیئے دو جہانوں کا وجود عمل میں آیا ہو اپنی نماز میں تیرے حضور کیئے سجدے کو صرف اس لئے طویل کر دے کہ سجدے کے دوران اسکی پیٹھ پر سوار اسکے ننھے شاہہسوار کی سواری کے مزے میں کوئی خلل نہ آ جائے۔ سبحان اللہ وہ نواسہ رسول جنکے بارے خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہو: ’’حسن اور حسین دنیا میں میرے دو خوشبودار پھول ہیں‘‘۔ کہاں نواسہ رسول کا یہ مقام اور شان اور پھر آلِ رسول کے گھرانے کی وہ قربانی جسکے بارے رائے احمد پوری لکھتا ہو :؎
آلِ نبیؐ کا کام تھا، آلِ نبیؐ ہی کر گئے
کوئی نہ لکھ سکا ادیب !ایسی کتاب ریت پر
ایسے میں اس ناچیز، اس خاکسار اس گنہگار کی کیا اوقات کہ وہ ان اعلی ہستیوں اور انکی اس عظیم قربانی کا اْن الفاظ میں احاطہ کر سکے جو انکے اس رتبے کے شایانِ شان ہو۔ ایسے میں غیب سے درود پڑھنے کی آواز آ نے لگتی ہے۔
قارئین! بلاشبہ پاک ہے وہ ذات جو چند الفاظ میں اپنے تمام رموز و اسرار آپ پر کھول دیتی ہے۔ کاش یزیدی قوتوں کو بھی درود پاک کی صورت میں اس دْعا کے ان الفاظ کی سمجھ آئی ہوتی جنکے بغیر ایک مسلمان ایک مومن کی نماز ہی مکمل نہیں ہوتی۔ اگر وہ اس درود پاک کے الفاظ اور انکی اہمیت کو سمجھ سکتے تو وہ اس آلِ رسول کو ختم کرنے کی کبھی کوشش ہی نہ کرتے جنکی سلامتی مانگنے کا اللہ تعالی نے خود حکم صادر فرمایا ہو اور پھر جنکے بارے میں حضور نبی اکرم کا ارشاد ہو " جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میری ذات کے ساتھ بغض رکھا اور جس نے ان کو اذیت دی اس نے میری جان کو اذیت دی‘‘ حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا اہل بیت میں سے آپ کو کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن اور حسین۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کرتے تھے کہ’’ میرے دونوں بیٹوں کو میرے پاس بلائو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو سونگھتے اور اپنے ساتھ چمٹا لیتے‘‘
اِن تمام حقیقتوں کی موجودگی میں یزیدی یلغار کی طرف دیکھتا ہوں تو قرآن پاک کی سورہ بقرہ آیت نمبر 18 میں ارشاد باری تعالی کی طرف دھیان جاتا ہے "بہرے گونگے اندھے ہیں سو وہ نہیں لوٹیں گے" بس یزید بھی انہی میں سے ایک تھا جو نہ سن سکا نہ دیکھ سکا اور نہ سمجھ سکا۔ قرآن پاک کی سورہ العصر میں ارشادِ باری تعالی ہے’’ قسم ہے زمانے کی، بیشک انسان خسارے میں ہے مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے رہے‘‘۔ گہرائی میں دیکھیں تو اس آیت میں یزید اور امام حسینؓ دونوں کی طرف اشارہ ہے بیشک آلِ رسول حق پر ڈٹ گئے، اسی لیئے انکا نام آج تک زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا جسکا زندہ ثبوت یہ ہے کہ شہادتِ حسین ؓسے لیکر آج تک دیکھ لیں کیا سْنی کیا شیعہ کیا وہابی جب بات آتی ہے حْسینؓ کی تو سبھی کہتے ہیں کہ حْسینؓ ہمارے ہیں۔ مسلمان ہی کیا غیر مذہب کے لوگ بھی انکو یاد کرتے ہیں۔ اسکے برعکس گھاٹے کا سودا اگر کسی کے نصیب میں آیا تو وہ کون تھا وہ تھا یزید جسکا آج کوئی نام لیوا نہیں۔ شاید محمد علی جوہر نے اسی لیئے کہا " قتلِ حْسین اصل میں مرگِ یزید ہے۔اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد"۔ امام حسنؓ کے بارے نبی اکرم کا ارشاد ہے ’’میرا یہ بیٹا سید ہے‘‘ اور پھر اسکی وضاحت بھی فرما دی " یعنی یقینا ایک وقت آئے گا جب مسلمانوں کے دو بڑے گروہ آپس میں ٹکرائیں گے اور امت میں ایک بہت بڑا انتشار ہو گا۔ میری امت ٹکڑے ہو رہی ہوگی، دو بڑے گروہوں میں بٹ چکی ہوگی، دونوں طرف مسلمان ہوں گے اور میرا یہ بیٹا اْن میں صلح کرا دے گا، صلح کرانے کی وجہ سے اپنی قربانی کے ذریعے امت کو وحدت اور یکجہتی دے دے گا۔ (اس لیے میں اس کو مسلمانوں کا سردار و سیّد قرار دے رہا ہوں)۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضری دینے کے لئے اللہ سے اجازت طلب کی جب وہ فرشتہ اجازت ملنے پر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا تو اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور حضورؐ کی گود میں بیٹھ گئے تو آپ ان کو چومنے اور پیار کرنے لگے۔ فرشتے نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ ! کیا آپ حسینؓ سے اتنا پیار کرتے ہیں ؟
حضورؐ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا آپ کی امت حسینؓ کو قتل کر دے گی۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان کی قتل گاہ کی (مٹی) آپ کو دکھا دوں۔ پھر وہ فرشتہ سرخ مٹی لایا جسے اْم المومنین اْم سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے کپڑے میں لے لیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضور نبیؐ اکرم اللہ کے حضور یہ دعا نہیں کر سکتے تھے کہ یا اللہ امام حسین ؓ کو ایسی موت نہ دینا۔ یقیناً اگر اپ ایسی دعا کرتے تو اللہ قبول فرماتا لیکن اللہ کی یہ رضا تھی اور حضور نبی اکرمؐ یہ سمجھتے تھے کہ اللہ یہ اعزاز ان کے سب سے لاڈلے کو تقویض کرنا چاہتا ہے کہ حق کی لڑائی کس طرح لڑی جاتی ہے۔ بس اسی ایک بات کو سمجھتے ہوئے آج ہر امام حسینؓ کے چاہنے والے پر لازم ہے کہ اس عاشور پر عزا داری کے ساتھ ساتھ وہ یہ عزم کرے کہ اس نے آج کی یزیدی قوتوں کے خلاف امام حسینؓ کی تقلید کرتے آواز اٹھانی ہے اور ظلم کو ختم کرنا ہے۔ یہی اِمام حسینؓ کی قربانی کی پکار ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024