سیاست دان اتاولے ہوئے ہیں ، پہلے پانچ سال بھی انتظارکرتے تھے اور اچھی بری بات برداشت کرتے تھے اور ساتھ ساتھ شور بھی مچاتے تھے ۔ حکومت جانے کا سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ کو ہوا مگر چاہے کوئی بھی وجہ رہی ہو و شور و غوغا نہیں کیا جو ہمارے سیاست دانوںکا شیوہ ہے عوام ستر سالہ نظام سے تنگ نظر آرہے تھے ایک تبدیلی کے نعرے کو لبیک کہہ دیا ، اس میں تحریک انصاف کے میڈیا سیل کی کامیابی اور مسلم لیگ کے میڈیا سیل کی نا اہلی زیادہ ہے ۔چور چور کا اتنا شور عمران خان نے جگہ جگہ مچایا کہ لوگوں نے چور ہی سمجھ لیا ۔جبکہ عدالت نے کہا کہ کرپشن نہیں کی ، اگر یہ کہا جائے میاںنواز شریف اور انکی صاحبزادی کی معترض زبانیں سزائوں کی وجہ بنیں ۔ عمران خان کی تحریک انصاف نے ۲۲ سالہ جدوجہد کے بعد اگر حکومت بناکر عوام سے درخواست بھی کردی ہے ہمیں وعدوں پر پیش رفت دکھانے کیلئے 100 دن دئے جائیں پھر اعتراض کریں ۔ فوری اعتراضات کرنا میرے مطابق اچھی بات نہیں انتخابی دعوے ایک علیحدہ بات ہے وہاں اسی طرح ہوتا ہے کہ آج ہم کامیاب ہونگے کل دودھ کی نہریں بہنی شروع ہونگی جبکہ ایسا ممکن نہیں ہوسکتا تھا پاکستان کے گزشتہ تمام انتخابات کی تاریخ اٹھا لی جائے جو بھی حکومت آئی اس نے یہ کہا کہ ’’خزانہ خالی ہے ــ‘‘ آج واقعی ہماری پالیسیوں ، عیاشیوںنے اس جملے کو صحیح کر دکھایا ہے ۔ کشکول آئی ایم ایف کے سامنے سب توڑتے ہیں اور پھر مجبور ہوتے ہیں کہ کشکول تو توڑ چکے ہیںاسلئے جھولی پھیلانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ غیرملکی طاقتیںجن کیلئے cpecپاکستان کی ترقی کی وجہ سے ایک ڈراونہ خاب ہے اس پر کبھی اس جانب سے کبھی دوسری جانب وار کرتی ہیں مگر آفرین ہے پاکستا ن کے دوست چین پر کہ وہ تین وجوہات کی بناء پر کسی بھی پروپیگنڈہ میں آنے کو تیار نہیں اس میںاول ، پاکستان سے دوستی، دوم ، چین کا لگا ہوا سرمایہ اور سوم بین الاقوامی تجارت کے مستقبل میں چین اور پاکستان دونوں کا تابناک مستقبل۔ اب یہ ہماری حکومت کا کام ہے اس دور سے بغیر ملک کی مزید مشکل میں ڈالے ۔ یہ تو ایک اچھی حکومت اور اس میں موجود تجربہ کار لوگو ں کا کارنامہ ہوگا ۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ عسکری ادارے ہمیشہ کی طرح ملک کے مستقبل پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور تابناک مستقبل کیلئے سول اداروں کے قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں ۔ پاکستان انتخابی عمل سے گزر چکا ، اگر وطن سے محبت ہے تو حکومت مخالفت میں کوئی ایسا اقدام کرنے سے گریز کریں جس سے بیرونی دنیا اور حکومت پاکستان میں کوئی ناچاقی کے مواقع پیداہوں۔ یہ اور بات ہے کہ موجودہ حکومت نے انتخابی نعروںکے ذریعے عوام کی توقعات کو آسمان کی بلندی پہنچا دیا تھا ، مثلا بیس ارب روپے کی روزانہ کرپشن ( اب تو کرپشن ختم ہونا چاہئے اور یہ پیسہ بچنا چاہئے ) مثلا تمام لوٹی ہوئی دولت واپس لائینگے جیسے خوامخوہ کے نعرے ، لوگ کرپشن بھی کرتے اور نیب کو دھمکیاں بھی دیتے ہیں ۔ وزیر قانوں فروغ نسیم آج بھی کہتے ہیں کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کیلئے قانوں مرتب کررہے ہیں ۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے سے نہ جانے کونسا قانون منع کرتا ہے ۔ میرے خیال میں ملکی صورتحال اس جگہ ہے کہ وہاں 100دن کی کارکردگی نہیں ، کم از کم ایک سال تو دیکھنا ضروری ہے کسی اعتراض کے بغیر تاکہ حکومت جوابات دینے اور اندرونی پریشر سے باہر ہو ۔ حکومت نے پہلا وار اندرون ملک مہنگائی پر کردیا ہے اسکے لئے جتنی بہتر پالیساںمرتب ہوسکیںوہ ملک کو بہتری کی طرف لیجائینگی عوام کو کچھ سکون میسر ہو تا کہ وہ کسی پروپیگنڈہ کا شکار ہوئے بغیر حکومت کی مشکلات میں ساجھے داری کریں۔ وزیر اعظم عمران خان پاکستان کے سب سے قریب دوست اور مہربان ملک سعودی عرب کے دورے میں یقینا پاکستان کے معاملات کو بہتری کی طرف لیجانے کی کچھ مثبت نوید لائینگے ۔ اس دوران عوام کو لال بتی کے پیچھے نہ لگایا جائے ، گورنر ہائو س کھولنا ، گاڑیوں ، بھینسوں کا نیلام عوام کی زندگی میں تبدیلی نہیں لاسکتا ۔ ہاں وزیر اعظم کا نوکر شاہی سے خطاب حکومت چلانے والے اداروں کی زندگیوںسے خوف نکالے گا اسلئے بہتر ہے کہ وزیراعظم نے جو کہا کہ میں آپکے ساتھ کھڑا ہوں تاکہ آپ آزادی سے کام کرسکیں مگر کرپشن اور کام میں فرق ہے ۔ ماضی میں بیورکریٹس کے گھروں سے بھی کروڑوں روپے نکلے ہیں مگر اب ایسا نہیں ہونا چاہئے اگر اب ہو تو اسے نیب کی طویل تحقیقات کے بجائے فوری سزا کا اہتمام و قانون ہونا چاہئے ۔اس انگریزوںکے قانون نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024