محترمہ کلثوم نواز جن کو ’’’مرحومہ‘‘ لکھنے کی ہمت نہیں لیکن اللہ کا فیصلہ ہر حال میں قبول کرنا ہے۔ موت کا ذائقہ ہر ایک کو چکھنا ہے۔ رستم ہند گاما پہلوان کی نواسی کلثوم 29مارچ 1950ء کولاہور میں پیدا ہوئیں۔ 1971ء میں میا ں نواز شریف کے عقد میں آئیں۔ شادی کے وقت زیر تعلیم تھیں۔ لیکن انہوں نے شادی کے بعد بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بحیثیت مسلمان ہم سب کا فرض ہے کہ مرحومہ کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کریں اور اُن کی اچھی باتوں کو یاد رکھا جائے ۔ انتہائی معتبر خاتون تھیں۔ پچھلے سال اچانک انکشاف ہوا کہ ان کو گلے کا کینسر ہو گیا۔ فوری طور پر انہیں علاج کے سلسلہ میں انگلینڈ منتقل کر دیا گیا۔ لیکن اپنے نانا کی طرح اسی طرز کی بیماری کا مقابلہ کرتے ہوئے انتقال کر گئیں اور لاکھوں مداحوں کو سوگوار کر دیا۔
کینسر ایک ایسی بیماری ہے کہ اِس کا اُس وقت معلوم ہوتا ہے جب کینسر اپنی جڑیں مضبوط کرچکا ہوتا ہے۔ اور متاثرہ مریض کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ ایک جان لیوا بیماری کا شکار ہو چکا ہے۔ لیکن زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، چاہے شفا دے دے، چاہے موت۔
دسمبر 2011ء یا جنوری 2012ء میں مجھے معلوم ہوا کہ مجھے گلے کا کینسر ہو گیاہے۔ سروسز ہسپتال میں میری biopsyہوئی۔ وہ رپورٹس لے کر میں اپنے چھوٹے بھائی سجاد اختر کے ساتھ کینسر کے ایک نامی گرامی ہسپتال میں پہنچ گیا۔ وہاں کا نظام اور ڈاکٹروں کا تجربہ انتہائی وسیع تھا۔ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر علاج سے انکار کر دیا کہ’’چونکہ آپ کا کینسر آخری سٹیج پر ہے اور ہم اس طرح کے مریضوں کا علاج نہیں کرتے۔‘‘ وہاں سے مایوس ہو کر ہم دونوں بھائی ایک سرکاری ہسپتال ’’اِنمول‘‘ پہنچ گئے۔ وہاں ابتدائی و ضروری کارروائی کے بعد مجھے ڈاکٹر منیب ناصر کی طرف ریفر کر دیا۔ رپورٹس اُن کی طرف رکھیں۔تو میرا دل دھڑک رہا تھا ۔ مَیں نے اُنہیں بتایا کہ ایک معروف ہسپتال نے میرا علاج کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس پر مَیں اس عظیم ڈاکٹر منیب ناصر کے حوصلہ افزا الفاظ کو نہیں بھلا سکتا۔ انہوں نے کہا ’’اگر ہمارے پاس آخری سانس لیتا ہوا مریض بھی آ جائے تو ہم اس کا علاج ضرور کرتے ہیں۔ صرف آپ کے حوصلہ کی ضرورت ہے ، ہمت ہم بھی نہیں ہاریں گے اور آپ بھی۔‘‘ انہوںنے کچھ ٹیسٹ لکھ کر دئیے جن کی رپورٹس آنے پر میرا باقاعدہ علاج شروع ہو گیا۔ ذہن نشین رہے کہ علاج سے قبل ہر وقت میرے گلے اور ناک سے خون بہتا رہتا تھا اور میںانتہائی لاغر ہو چکا تھا۔ لیکن میرا علاج کرنے والے ڈاکٹرز کی ٹیم نے بڑی عقل مندی اور محتاط انداز میں میرا علاج شروع کر دیا۔ ٹیم میں ڈاکٹر منیب ناصر کے علاوہ ڈاکٹر نادیہ سجاد اور ڈاکٹر احمد قریشی بھی شامل تھے۔ بعد ازاں’’ انمول ‘‘ہسپتال میں ایک نئے ڈائریکٹر ڈاکٹر ابوبکر شاہد کی تعیناتی ہو گئی۔ جنہوں نے ہسپتال کا نقشہ ہی بدل دیا اور کمال کی سہولیات ہسپتال میں مہیا کر دیں۔ (Fummigation, Sanitation, cleaning)اور وہاں کے نظم و ضبط کو کمال انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ جگہ جگہ یہ لکھا ہوا ہے کہ کوئی بھی مریض کسی بھی مشکل میں براہ راست ڈائریکٹر صاحب سے مل سکتا ہے۔ کوئی سفارش نہیں چلتی۔ ہر مریض ٹوکن کے نمبر سے اپنے ڈاکٹر کو مل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مریض جن کی بیماری خطرناک حد تک پہنچ چکی ہو، ان کو بروز ہفتہ (Tumour Board Meeting)میں بلایا جاتا ہے۔ جہاں کم و بیش تمام ڈاکٹرز کا عملہ موجود ہوتا ہے اور سب کی مشترکہ رائے سے علاج کی نوعیت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ابوبکر شاہد کی انتہائی شاندار خدمات کا اعتراف گورنمنٹ آف پاکستان نے بھی کیا اور انہیں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ سے نوازا۔ بہرحال میں اب کافی حد تک اس بیماری سے چھٹکارا حاصل کر چکا ہوں۔
ہماری ارض پاک کو بھی کم و بیش 33سال سے اَن دیکھے کینسر نے اپنی لپیٹ میں لے کر اسے انتہائی کمزور کر دیا ہے ۔ ہر آنے والی حکومت نے اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے اس ملک کو بے دردی سے لُوٹا۔ میں کسی خاص حکومت کی بات نہیں کر رہا۔ مسلم لیگ (ق) نے جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں زبردست کرپشن کی۔ بعدازاں پی پی پی نے آصف علی زرداری کی قیادت میں کرپشن کو عروج پر پہنچا دیا۔ ایک وہ وقت تھا کہ آصف علی زرداری کے سرے محل اور ریجنٹ ہوٹل دوبئی کی باتیں ہوتی تھیں۔ اب اُن کی لاتعداد جائیدادوں ، منی لانڈرنگ اور کرپشن زبان زدِ عام ہے۔ حال ہی میں ختم ہونے والی حکومت یعنی مسلم لیگ (ن) نے اس کام میں تمام حدود کراس کر لیں۔ جس کو بیرونی میڈیا بھی منظرِ عام پر لا رہا ہے۔ ذرا غور کریں جس ملک کا وزیراعظم 46کروڑ کی گھڑی پہنتا ہو اور گورنر ہائوس مری کے ایک ٹوائلٹ پر 60کروڑ روپے خرچ کر دیا جائے تو کیا اس ہمارے پیارے ملک کو کینسر زدہ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔ لیکن ابھی امید کی ایک کرن باقی ہے اور وہ نئی آنے والی حکومت یعنی پی ٹی آئی ہے۔ جس میں اگرچہ کچھ لوگ ایسے موجود ہیں جن پر کرپشن کے الزاما ت ہیں لیکن اُن کا سربراہ یعنی وزیراعظم عمران خان اُن کو ایسے گھنائونے کام سے روک کر رکھیں گے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان نا صرف کینسر سے آزاد ہو گا، اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے گابلکہ کامیابیوں کی طرف گامزن بھی ہو جائے گا۔انشاء اللہ۔ ذہن نشین رہے کہ کینسر کے خاتمہ کے لیے ایک منظم اور ذہین ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024