تصوف مذہب سے فلسفے سے زیادہ قریب تر ہے ۔ جسے ہم اسلامی تصوف کہتے ہیں اسکی اشاعت اویسہ ،خراسان اور گندیشا پور کے مدرسوں کے واسطے سے ہوئی جو مسیحیوں نے شام،ایران اور عراق میں قائم کر رکھے تھے۔فلا طینوس اور فرفوریوس کی کتابیںاور انکی شرحیںشام زبان میں منتقل ہوچکی تھیںاور ان مدرسوں میں پڑھائی جاتی تھیں۔مامون الرشید کے زمانے میں بیت الحکمت کے علما ء نے ان شرحوں کے ترجمے عربی میں کئے جن سے مسلمانوں کے مذہبی عقائد میں ہلچل مچ گئی اور متکلمین نو اشراقی افکار کی مطابقت مذہب کے عقائد سے کرنے لگے ۔فیثا غورسی اور نو اشراقی افکار کی اشاعت کے باعث مذہب اسلام سینکڑوں فرقوں میں منقسم ہوگیا اور نسخ ارواحِ، سریان،امتزاج،تجسیم ،حلول اور اوتار کے نو اشراقی، آریائی افکار اسلامی تعلیمات میں نفوذ کرگئے ۔ مسلمانوں کے فلسفے اور علم کلام کی طرح تصوف بھی انہی افکار کی اشاعت سے صورت پذیر ہوا تھا۔ آج ہم جن حضرات کو صوفی گردانتے اور جن کے افکار کو قابل تقلید خیال کرتے ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق قرون وسطیٰ ہی سے ہے ۔ صوفی ازم جس سماجی ماحول میں پیداہو ا وہ ہمارے آج کے سماج اور اسکے تقاضوں سے قطعی مختلف تھا۔اُس عہد کا سماج اس قدر پیچید ہ نہیں تھا جس قدر تہہ در تہہ سماج ہمارے آج کے دور کا ہے ۔
صنعتی انقلاب کے نتیجے میں قومی ریاستیں صورت پذیر ہوئیں۔یہ ریاستیں ماضی کی ریاستوں سے ہر لحاظ سے مختلف اور منفرد تھیں ۔ ایک قومی ریاست میں ایک سے زائد مذاہب کے ماننے والے اور مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے شہری یکساں حقوق و فرائض سے رہ سکتے ہیں ۔ اب سیاسی ،سماجی اور عمرانی اظہار کے نئے طریقے وجود میں آگئے ہیں اور عہد جدید کو صوفی ازم کی اصطلاحوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ صوفیا کے حلقوں کی جگہ سیاسی جماعتوں نے لے لی ہے ۔ اب ریاستی اقتدار سازشوں اور دعائوں کے بجائے عام انسانوں کے ووٹوں کا مرہون منت ہوگیا ہے۔آج اگر ہم مذہب کے نام پر نفرت ،کشیدگی اور قتل و غارت گری ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے صوفی ازم کے احیا کی بجائے ایسے نظریات اور افکار سے رجوع کرنا ہوگا جو موجودہ عہد کی سماجی اور سیاسی صورتحال سے مطابقت رکھتے ہیں ۔
آج بہت سے ممالک نے اپنے ہاں سے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ ورانہ کشدگی کا خاتمہ کردیا ہے اور مختلف مذاہب کے ماننے والے پرامن زندگی کذارہے ہیںاور یہ سب انھوں نے صوفی ازم کے احیا کی بجائے سیکولر ازم کی بدولت حاصل کیا ہے ۔ سیکولر ریاست میں تمام شہری بلا لحاظ مذہب مکمل مذہبی آزادی ،مساوات اورباہمی احترام کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں۔اس سے ایک گروہ کے پیرو کاروں کو ریاست کے شہری دوسرے گروہوں کے ماننے والوں سے مختلف سماجی ،فکری،تمدنی اثرات قبول کرنے کے مواقع ملتے ہیں جس سے معاشرے میں سماجی تنوع بڑھتا اور توانا ہوتا ہے۔ سیکولرازم ہی ایک ایسا سیاسی نظریہ ہے جو تمام مذاہب کے پیرو کاروںکے مابین مساوی سلوک کا داعی ہے ۔ سیکولر ریاست تمام شہریوںکے مفادات کی غیر جانب داری سے تحفظ کرتی ہے اور ریاست کی نظر میں تمام شہری بلا لحاظ لسانی ،مذہبی یا ثقافتی امتیاز اور تفریق کے یکساں حقوق اور مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ شہری کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو سیکولرریاست کو اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہر شہری مساوی انسانی اور سماجی حقوق کا حق دار ہوتا ہے ۔ سیکولر ازم جس کا ہمارے ہاں مفہوم بد قسمتی سے لا مذہبیت خیال کیا جاتا ہے ، ہر شہری کو حق دیتا ہے کہ وہ جو مذہب چاہے اختیار کرے اور اپنے پسندیدہ مذہب کی روشنی میں اپنی نجی زندگی کو استوار کرے ریاست کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ شہری کے مذہبی اختیار کے حق میں مداخلت کرے ۔ ایک سے زائد مذاہب کے پیرو کاروں کی حامل ریاست کی بقا اور اسکے شہریوں کے مابین مذہب آہنگی اور برداشت کا حصول صرف اسی صورت ہی میں ممکن ہے کہ ریاست کسی ایک مذہب کی کسٹوڈین بننے کی بجائے خود کوسیکولر ازم کے اصولوں پر استوار کرے ۔
پاکستان میں گو ایک مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن ان کے مابین فرقہ ورانہ تنائو اور مناقشت بہت زیادہ ہے ۔ یہ فرقہ ورانہ تنائو جو ایک وقت میں محض نظری ہو ا کرتا تھا گذشتہ کچھ سالوں سے مسلح جھڑپوں کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی دن کسی فرقہ کا کوئی ڈاکٹر ،وکیل یا مذہبی رہنما ہلاک نہ ہوتا ہو ۔فرقہ ورانہ قتل و غارت گری کا خاتمہ کافیا ں گا کر یا صوفیا کی انسان دوستی کومثال بنا کر ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ جب تک ریاست اور مذہب کو علیحدہ نہیں کیا جاتا اس وقت مذہبی کشیدگی اور فرقہ ورانہ تشدد ختم نہیں ہوسکتا ۔ مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے ۔ وہ کس مذہب کو ماننا چاہتا ہے اور کس طریقے سے اپنی زندگی استوار کرنا چاہتا ہے ریاست کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ آج کے صوفی ازم سے مراد انسان دوستی اور مذہبی رواداری ہے تو ہمارے عہد کا صوفی ازم ، سیکولر ازم ہے ۔ یہ ہی وہ نظام ریاست ہے جو ہمیں فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی سے نجات دلا سکتا ہے ۔ بصورت دیگر ہم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے ۔ (ختم شد)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024