لڑکی سے لڑکی کی شادی، ہائیکورٹ نے جوڑے کو مجاز عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کر دی
لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس منظور احمد ملک نے لڑکی کے ساتھ لڑکی کی شادی کے خلاف دائر درخواست میں درخواست گذار کو مجاز عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔ عدالت میں اس انوکھے کیس میں اس وقت عجیب صورت حال پیدا ہو گئی جب گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی گجرات کی 26 سالہ عائشہ بٹ اور اس کا خاوند شہزاد بٹ عدالت میں پہنچ گئے۔ عائشہ بٹ نے اپنے خاوند کو لڑکا جبکہ اس کے گھر والوں نے لڑکی قرار دینا شروع کر دیا۔ عائشہ بٹ نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا کہ اس نے شہزاد بٹ سے مرضی سے شادی کی ہے۔ عائشہ بٹ کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ شہزاد لڑکا ہے لڑکی نہیں اس کے گھر والے جھوٹ بولتے ہیں۔ دوران سماعت عائشہ بٹ کی والدہ اور اس کے رشتہ دار بھی عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے شہزاد بٹ کے حوالے سے عدالت میں ثبوت کے طور پر دستاویزات پیش کئے جس کے مطابق شہزاد بٹ لڑکا نہیں بلکہ لڑکی ہے اور اس کا اصل نام سونیا بٹ ہے۔ جو گجرات کے لڑکیوں کے سکول میں پڑھتی رہی ہے اس حوالے سے مبینہ شہزاد بٹ کا سکول ریکارڈ بھی عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سونیا نے ورغلانے کےلئے لڑکا بن کر ان کی بیٹی سے شادی کی۔ سونیا کی والدہ بھی مانتی ہے کہ وہ لڑکی ہے۔ دو لڑکیوں کا شادی کرنا غیر فطری، غیر اسلامی اور غیر قانونی فعل ہے۔ فاضل عدالت نے اخراج مقدمہ کے لئے دائر درخواست کو نمٹاتے ہوئے کیس کے فریقین کو مجاز عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے عائشہ بٹ اور مبینہ لڑکا ظاہر کرنے والی سونیا بٹ کو ہائی کورٹ کی سکیورٹی میں بھجوا دیا۔ میڈیا کی طرف سے پوچھے گئے سوال پر کہ وہ لڑکی ہے یا لڑکا، شہزاد نے انتہائی غصے سے کہا کہ وہ لڑکا ہے۔ عائشہ بٹ کے چچا عارف اور کزن کاشف بٹ نے بتایا کہ جس لڑکے کے ساتھ عائشہ بٹ نے شادی کا کہا ہے وہ لڑکا نہیں بلکہ لڑکی ہے اس کا اصل نام سونیا ہے۔ عائشہ کے وکیل سمیع الحسن ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ شہزاد بٹ کے خلاف درج کیا گیا مقدمہ میں اس کے لڑکی ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔