حافظ حسین احمد نے کہا ہے اور یہ بات نوائے وقت میں شائع ہوئی ہے۔ ”صدر زرداری نے آغا خان سے اربوں روپے لے کے گلگت بلتستان کا نیا صوبہ بنایا۔“ تو پھر وہ یہ بھی بتائیں کہ سرائیکی صوبہ ہزارہ صوبہ کراچی صوبہ بلوچستان میں پٹھان صوبہ بنانے کیلئے کس کس سے کیا کیا لیا جائے گا۔ بھارت کا نام لیا جا سکتا ہے کیونکہ بھارت نے کالا باغ ڈیم نہ بننے دینے کیلئے اربوں روپے باچا خان کی اولاد نرینہ اور سندھ والوں کیلئے دیئے ہیں۔ اس معاملے میں ابھی تک معمہ ہے کہ حکمرانوں نے یوں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ پاکستان کی ساری حکومتوں نے صدر ایوب خان کے بعد اپنا حصہ وصول کیا ہو گا؟ مگر موجودہ حکومت سب پر بازی لے گئی ہے۔ شاید راجہ رینٹل کو اسی صلے میں وزارت عظمیٰ ملی کہ انہوں نے بجلی و پانی کا وزیر شذیر بننے کے بعد اعلان کیا کہ اب کالا باغ ڈیم کبھی نہیں بنے گا۔ البتہ صوبے بہت سے بنیں گے۔ کراچی صوبے کیلئے بلدیاتی انتخابات کے مسودے پر کئی برسوں کے ان گنت مذاکرات کے بعد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی حکومتوں کے درمیان دستخط ہو گئے ہیں۔ اس پر سندھی نیشنلسٹ پارٹیوں نے احتجاج کا اعلان کیا۔ اس میں اے این پی آگے آگے ہے۔ وہ ایم کیو ایم کے ساتھ پیپلز پارٹی کی حکومت میں اپنی حکومت بنائے ہوئے ہے۔ پیر پگارا اور نوازشریف نے بھی احتجاج میں شرکت کا اعلان کیا۔ ٹھیک ایک دن پہلے بلدیہ ٹا¶ن میں فیکٹری کے اندر آگ لگ گئی اور پورے تین سو مزدور آدمی جل کر راکھ ہو گئے۔ بلدیہ ٹا¶ن اور بلدیاتی انتخابات کے لفظی ہم آہنگی پر غور کریں۔ اپیل ہوئی کہ بلدیاتی نظام کے خلاف ہڑتال نہ کرو مگر ہڑتال کرنے والے بھی سیاستدان نکلے۔ ہڑتال تو ہوئی ہے مگر ہڑتالی غائب ہو گئے ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ حافظ حسین احمد جھوٹ نہیں بولتے۔ ورنہ مولانا فضل الرحمن ان کے ساتھ ناراض نہ ہوتے۔ انہیں ٹکٹ نہ دیا گیا۔ دوسری کئی جماعتوں نے ٹکٹ آفر کئے مگر حافظ صاحب نے الیکشن ہی نہ لڑا۔ ابھی مولانا سے لڑائی جاری ہے۔ حافظ صاحب اب صدر زرداری کیلئے ابھی اور انکشافات کریں گے۔ وہ صرف یہ بتائیں کہ گلگت بلتستان تو صوبہ بن گیا۔ نہ کسی نے مطالبہ کیا نہ حکومتی لوگوں نے نعرے مارے نہ فرینڈلی اپوزیشن نے غیر دوستانہ سیاست کی۔ اس صوبے کے قیام میں کسی نے رکاوٹ نہ ڈالی۔ سب نے بلاچوں و چرا قبول کیا۔ الیکشن ہوئے تو سب کے حتیٰ کہ حافظ صاحب کے لیڈر حضرت مولانا بھی گئے۔ یہ راز کیا ہے۔ یہ حافظ صاحب کو پتہ ہو گا۔ تو وہ بتاتے کیوں نہیں۔ دوسرے صوبے ابھی تک کیوں نہیں بن رہے۔ انتظار کس چیز کا ہے۔ کیا اسے حافظ صاحب کے بیان کی روشنی میں دیکھا جائے۔ جہاں تک جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبہ کا تعلق ہے تو جب تک محمد علی درانی زندہ ہے۔ اس صوبے کیلئے کوئی امید نہیں ہے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ اس صوبے کیلئے بہاولپور کو صدر مقام نہیں بننے دیا جائے گا۔ لگتا ہے کہ بہاولپور کو بھی صوبہ بنا دیا جائے تو بہاولپور صدر مقام نہیں بنایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ محمد علی درانی ہوں گے۔ وہ صحرائے چولستان میں اپنا دفتر بنائیں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آ گیا ہے۔ اسے بھٹو صاحب کے داماد صاحب صدر زرداری ضرور سنیں۔ اب موروثی سیاست نے ایک کروٹ لی ہے۔ بیٹوں بیٹیوں کی بجائے دامادوں کا زمانہ آ گیا ہے۔ صدر زرداری نے دامادی سیاست کو تاریخی بنا دیا ہے۔ اس سے دوسرے دامادوں کو بڑا حوصلہ ملا ہے۔ نوازشریف کے داماد صاحب کیپٹن صفدر بہت خوش ہوں گے۔ انہوں نے پشاور سے اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے۔ جب امیر مقام کو مسلم لیگ ن میں اصل مقام مل گیا تو کیپٹن صفدر کی رکنیت بحال کر دی گئی ہے۔ اب انہیں حمزہ شہباز سے کوئی خطرہ نہیں کہ مریم نواز میدان میں آ گئی ہیں۔ وہ گھر میں مریم صفدر کہلاتی ہیں۔ انہیں بھی کوئی خطرہ نہیں کہ وہ پہلے ہی اپنے شوہر نامدار کیپٹن صفدر کے حق میں دستبردار ہو گئی ہیں۔ ایم این اے بھی وہی بنے ہیں اور اب مسلم لیگ ن میں اکھاڑ پچھاڑ اور ق لیگ سے آنے والوں کیلئے وہی ”جگہ“ بنا رہے ہیں۔ یہ شادی بڑی سادگی سے ہوئی۔ نوازشریف نے اس تقریب میں شرکت نہ کی۔ جبکہ نصرت بھٹو سارا وقت شادی تقریب کی نگرانی کرتی رہیں۔ وہ آصف زرداری کی بہت طرفدار تھیں۔ کیپٹن صفدر گھر داماد کے عہدے پر فائز ہوئے۔ مگر یہ منصب زرداری کو نصیب نہ ہوا کہ بیوی کے پاس رہنے والا گھر داماد نہیں ہوتا۔ مسلم لیگ ن پر قبضے کیلئے کیپٹن صفدر کو کوئی غیر معمولی کارروائی نہیں کرنا پڑے گی۔ سب کچھ صلح صفائی سے ہو جائے گا۔ اس میں پیپلز پارٹی کی طرح صفایا کرنے کا موقع نہیں آئے گا۔ یہ معلوم نہیں کہ کیپٹن صفدر صدر بننا پسند کریں گے یا وزیراعظم؟ میرا خیال ہے وزیراعظم زیادہ موزوں ہے مگر اختیارات کی مہم جوئی نہیں ہو گی۔ کوئی دوسرا صدر تارڑ بآسانی مل جائے گا۔ پارٹی قیادت وزیراعظم کے پاس ہوتی ہے۔ صدر زرداری نے اب تک بہت حیرت انگیز سیاسی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پارٹی قیادت پر قبضہ ان میں سے ایک ہے۔
میں واقعات کے چکر میں اصل واقعہ سنا نہیں سکا۔ صدر زرداری کے علاوہ کیپٹن صفدر اور وہ سارے سیاسی داماد یہ واقعہ سن سکتے ہیں۔ شاید آگے چل کے ان کے کچھ کام آ سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے صدر جنرل ایوب سے بغاوت کی تو ایک سناٹا طاری تھا۔ بھٹو صاحب نے ایک اخبار کے مالک کو بلایا۔ اس کی مدد بھی کی۔ یہ مدد اس نے فوراً قبول کر لی مگر یہ کہا کہ ہم صدر ایوب کے مقابلے میں آپ کی حمایت نہیں کر سکتے۔ بھٹو صاحب نے اس کی تسلی کرائی اور کچھ مدد زیادہ کر دی۔ اس کی سانس میں سانس آئی۔ اسے رازداری سے کہا کہ میں آپ کی حمایت کا طالب نہیں۔ آپ بے شک صدر ایوب کے مقابلے میں میرے لئے خوب مخالفانہ خبریں لگائیں مگر اس طرح لگائیں کہ لوگوں کی نفرت صدر ایوب سے بڑھتی جائے اور لوگ زیادہ سے زیادہ میرے حق میں ہو جائیں۔ اس کے برعکس مجید نظامی سلہری مرحوم آف این پی ٹی کے ساتھ اعلانیہ پنڈی میں ملے اور کہا آپ کو ایوب نے تاشقند کے بعد الگ کر دیا ہے لیکن آپ یہاں روپوش ہو گئے ہیں۔ نکلیں میدان میں آئیں۔ بھٹو کہنے لگا مجھے کون چھاپے گا۔ مجید نظامی نے کہا میں چھاپوں گا! بھٹو پھر میدان میں آئے اور بالآخر ایوب خاں گھر چلے گئے اور بھٹو صاحب تخت نشین ہو گئے۔ رہے نام اللہ کا! مرد حر اسی بھٹو صاحب کے داماد ہیں اور اب صدر محترم ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38