ملک قیوم کے لیٹر کی واپسی کے لئے وزیر قانون کو سوئس حکام کو خط لکھنے کی ہدایت کر دی: وزیراعظم‘ ڈرافٹ تیار کرکے25 ستمبر تک پیش کیا جائے‘ ردوبدل کر سکتے ہیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + بی بی سی) وزیراعظم نے ”توہین عدالت“ کے مقدمہ میں عدالت عظمیٰ میں پیش ہو کر بیان دیا ہے کہ انہوں نے وزیر قانون و انصاف فاروق ایچ نائیک کو سوئس حکام کو خط لکھ کر سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کی جانب سے لکھا گیا خط واپس لینے کی ہدایت کر دی ہے جبکہ فاضل عدالت نے این آر او کیس کے فیصلہ کے پیراگراف نمبر 178 کی روح کے مطابق سوئس حکام کو لکھے جانے والے خط کا ڈرافٹ تیار کرنے اور وزیر قانون کو اختیار کی منتقلی کے اقدامات تحریری شکل میں عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے سماعت 25 ستمبر تک ملتوی کر دی ہے اور وزیراعظم کی استدعا پر انہیں تاحکم ثانی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ بھی دے دیا ہے۔ فاضل عدالت نے معاملہ کے حل کے لئے وزیراعظم کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم نے پہلے کی طرح آج بھی بہت اچھی باتیں کی ہیں، یہی ماحول آئندہ بھی برقرار رہنا چاہئے، ہر کوئی اپنا اپنا کام کرے تمام ادارے قابل احترام ہیں، یہ معاملہ ختم ہو رہا ہے، عدالتی احکامات پر عمل ہونا چاہئے، عدالت وفاق کے خدشات اور تحفظات کو دور کرے گی۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس اعجاز احمد چودھری، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اطہر سعید پر مشتمل پانچ رکنی خصوصی بنچ نے منگل کے روز مقدمہ کی سماعت کی تو اس موقع پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے ساتھ وفاقی کابینہ کے ارکان کی بڑی تعداد کے علاوہ اتحادی جماعتوں کے رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کو روسٹرم پر بلایا اور ان سے کہا کہ انہوں نے گذشتہ سماعت پر اس معاملے کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنے کا یقین دلایا تھا اور ہمیں یقین ہے کہ آپ نے عدالت کی ہدایت کے مطابق کام کر لیا ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں نے اس معاملے کے حل کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنے کا کہا تھا جس پر عدالت نے مجھے تین ہفتے کا وقت دیا تھا، اس معاملے سے نہ صرف ریاستی امور متاثر ہو رہے تھے بلکہ عوام میں بھی بے یقینی کی کییت بھی پیدا ہو رہی تھی، میں دوست ملک چین کے دورے پر گیا تھا جو انتہائی کامیاب رہا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پہلی بار روس کے صدر پاکستان آ رہے ہیں جبکہ صدر زرداری اسی ماہ اقوام متحدہ جا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں بطور وزیراعظم پارٹی کا سیکرٹری جنرل بھی ہوں، ایسا حل چاہتا ہوں کہ عدالت کا وقار بھی رہے اور صدر کے عہدے کا بھی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کا انعقاد دور نہیں، استدعا ہے کہ وسیع تر مفاد میں ایسا حکم دیا جائے جس سے مسئلہ حل ہو سکے، میں نے وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کو اختیارات دئیے ہیں اور ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے کو حل کرنے کے لئے عدالتی احکامات پر عمل کریں اور ملک قیوم کا بھیجا گیا خط واپس لینے کے لئے حکمت عملی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس حوالے سے وفاق کے تحفظات ہیں کیونکہ یہ کسی عام فرد کا نہیں بلکہ صدر مملکت کے عہدے کا معاملہ ہے جو پارلیمنٹ کا بھی حصہ ہیں اور ریاستی امور کے ساتھ بھی وابستہ ہیں لہٰذا استدعا ہے کہ عدالت اس معاملے کے حوالے سے فیصلہ کرتے وقت ان امور کو مدنظر رکھے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ معاملہ سلجھ جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگلے چند ہفتے پاکستان کے لئے اہم ترین ہیں، پہلی مرتبہ پاکستان میں چار ملکی سربراہی کانفرنس ہو رہی ہے، روس کے صدر یہاں آ رہے ہیں جن کے ساتھ سکیورٹی کے معاملات پر بات چیت ہو گی۔ صدر مملکت اگلے ہفتے امریکہ جا رہے ہیں جہاں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے اور پاکستان کو درپیش مسائل اجاگر کریں گے۔ ملک میں سیلاب کی صورتحال ہے، عوام مشکل میں ہیں، میں ان کے پاس جانا چاہتا ہوں لہٰذا اس معاملے کو کچھ عرصہ کے لئے ملتوی کر دیا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ نے خط لکھنے کا زبانی اختیار دے دیا ہے اس حوالے سے تحریری دستاویز پیش کی جائیں۔ اس معاملے کو حل کرنے کے لئے چار اقدامات کئے جائیں، وزیر قانون کو خط لکھنے کا اختیار دینے کے حوالے سے تحریری نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، خط کا ڈرافٹ تیار کر کے عدالت کو دکھایا جائے تاکہ یہ جائزہ لیا جائے کہ خط کے مندرجات سے مطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں یا نہیں، خط سوئس اٹارنی جنرل کے حوالے کیا جائے اور پھر عدالت کو اس سے آگاہ کیا جائے، عدالت وفاق کے تحفظات دور کرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں قانون سے زیادہ واقف نہیں ہوں اور میں نے خط خود نہیں لکھنا بلکہ اس کے لئے وزیر قانون کو مقرر کر دیا ہے لہٰذا عدالت اس معاملے کو اس ماہ کے آخر تک م¶خر کر دے، اس معاملے کی وجہ سے دورہ چین کے دوران بھی میں نے دبا¶ محسوس کیا اور میڈیا نے اس کے بارے میں سوالات اٹھائے تھے، فاضل عدالت قومی مفاد میں ایسا حکم دے جس سے سارا معاملہ حل ہو سکے، بطور وزیراعظم میرا فرض ہے کہ میں اس معاملے کو اس طرح حل کروں کہ عدالت کے وقار پر بھی حرف نہ آئے اور صدر مملکت کے عہدے کا تقدس بھی برقرار رہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں الیکشن کا انعقاد دور نہیں رہا، حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے جس سے عوام کے مسائل حل ہوں، یہاں جمہوریت بھی اتنی مضبوط نہیں رہی، عدالت جو بھی حکم دے ان حالات کو بھی پیش نظر رکھے، میں نے وزیر قانون کو مقرر کر کے اختیارات دے دئیے ہیں اور عدالتی احکامات پر عمل کریں گے۔ عدالت نے وزیراعظم سے کہا کہ انہوں نے اچھی باتیں کیں، ان کی کوششوں سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے، پہلے بھی کہا تھا کہ ملک قیوم کا خط واپس لیا جائے اب بھی یہی کہتے ہیں، اب مزید دیر نہیں ہونا چاہئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چالاکیاں کی جا رہی ہیں، چیف ایگزیکٹو چالاکی نہیں کر سکتا وہ رول ماڈل ہوتا ہے جو کہتا ہے وہ پورا کرنا پڑتا ہے، ہم معاملے کے حل کی طرف جا رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ میں کسی حد تک عدالت کو یقین دلانے میں کامیاب رہا ہوں لیکن ریاست کے مسائل کو مدنظر رکھا جائے، سمری کی تیاری کے لئے وقت درکار ہوتا ہے، مشاورت بھی کرنی ہے اس لئے وقت دیا جائے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ مسئلہ آپ نے حل کر دیا ہے اب مشاورت کی ضرورت نہیں۔ اس موقع پر وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ وزیراعظم نے ان کو اختیارات دے دئیے ہیں تاہم مجھے مہلت دی جائے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم کا حکم آ گیا آپ کو اختیار دے دیا گیا ہے اب اس پر فوری عمل کریں اور ڈرافٹ تیار کریں تاکہ قوم کو کوئی مثبت پیغام جائے، یہ زیادہ سے زیادہ دو دن کا کام ہے، وزیراعظم نے پہلے کی طرح ابھی بھی بہت اچھی باتیں کی ہیں یہی ماحول آئندہ بھی برقرار رہنا چاہئے، ہر کوئی اپنا کام کرے تمام ادارے قابل احترام ہیں، یہ معاملہ ختم ہو رہا ہے، عدالتی حکامات پر عمل ہونا چاہئے، عدالت وفاق کے خدشات اور تحفظات کو دور کرے گی۔اے پی پی کے مطابق وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم نے مجھے اختیارات دے دئیے ہیں تاہم مجھے مہلت دی جائے جس پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم کا حکم آ گیا آپ کو اختیار دے دیا گیا ہے اس پر فوری عمل کریں۔ انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سوئس حکام کو لکھے جانے والے خط پر عدالت کی تسلی ہونا لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ این آر او آرڈیننس سے متعلق سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بنچ کے فیصلے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے این آر او آرڈیننس سے متعلق عدالتی فیصلے کی شق 178 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سوئس حکام کو لازمی خط لکھنا ہو گا۔ جسٹس کھوسہ نے مزید کہا کہ خط کا ڈرافٹ عدالت کو دکھایا جائے تاکہ ضرورت ہو تو رودبدل کیا جا سکے۔