عالمی میلاد اور جشن ِ میلادالنبی ﷺ
میں آج بھی ڈاکٹر طاہر القادری کا مداح صرف اس لیے ہوں کہ وہ حقیقی عاشقِ رسول ﷺ ہیں اور دنیا کے 90مختلف ممالک میں انہوں نے میلاد النبیﷺ کا علم بلند کیا ہوا ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی تصنیف ’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں رقمطراز ہیں: اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا روئے خطاب اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے کہ اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور انکے ذریعے پوری امت کو بتادیجئے کہ ان پر اللہ کی جو رحمت نازل ہوئی ہے وہ ان سے اس امر کی متقاضی ہے کہ اس پر جس قدر ممکن ہوسکے خوشی اور مسرت کا اظہار کریں۔ جس دن حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی صورت میں عظیم ترین نعمت انہیں عطا کی گئی ہے اسے شایان شان طریقے سے منائیں۔ اس آیت میں حصول نعمت کی یہ خوشی امت کی اجتماعی خوشی ہے جسے اجتماعی طور پر جشن کی صورت میں ہی منایا جاسکتا ہے۔ چونکہ حکم ہوگیا ہے کہ خوشی منائو اور اجتماعی طور پر خوشی عید کے طور پر منائی جاتی ہے یا جشن کے طور پر۔ لہذا آیہ کریمہ کا مفہوم واضح ہے کہ مسلمان یوم ولادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور پر منائیں۔آج 12ربیع الاول کے مبارک روز امام الانبیاء باعثِ تخلیق کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کیلئے رحمت بن کر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود سے پوری دنیا میں نور حق پھیلا اور کفرو باطل کی تاریکیاں چھٹ گئیں۔یہی وہ دور تھا جب جہالت عام تھی، عدل وانصاف ناپید تھا۔ انس، پیار اور محبت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ جس سال نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ودیعت ہوا۔ وہ فتح و نصرت، ترو تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بدحالی، عسرت اور قحط سالی میں مبتلا تھے۔ ولادت کی برکت سے اس سال اللہ تعالیٰ نے بے آب و گیاہ زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی اور سوکھے درختوں اور مردہ شاخوں کو ہرابھرا کرکے انہیں پھلوں سے لاد دیا۔ اہل قریش اس طرح ہر طرف سے کثیر خیر آنے سے خوشحال ہوگئے۔اللہ تعالیٰ کے فضل اور اسکی نعمتوں کا شکر بجا لانے کا ایک مقبول عام طریقہ خوشی و مسرت کا اعلانیہ اظہار ہے۔ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی نعمت اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہ وہ نعمت عظمیٰ ہے جس کیلئے خود رب کریم نے خوشیاں منانے کا حکم فرمایا ہے: ’’فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں‘‘۔ولادت و میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم انسانیت پر خداوند کریم کا احسان عظیم ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم میلاد کے موقع پر 1400 سال پہلے بھی جھنڈے نصب فرمائے تھے۔حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں: میں نے دیکھا کہ تین جھنڈے نصب کئے گئے۔ ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں، تیسرا کعبے کی چھت پر اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوگئی۔اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نبی کریم ﷺ کی پیدائش پر خوشی منانا اتنا پسندیدہ عمل ہے کہ ابولہب جیسے کافرو مشرک کو بھی مرنے کے بعد اس کا اجر ملا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں صحیح بخاری کی روایت ملاحظہ فرمایئے: حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ثویبہ پہلے ابولہب کی لونڈی تھی۔ جب ابولہب نے اسے آزاد کردیا تو اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا۔ جب ابولہب مرگیا تو اسکے گھر والوں میں سے کسی (حضرت عباس رضی اللہ عنہ) نے اسے برے حال میں دیکھا، اس نے (یعنی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابولہب) سے پوچھا کہ (مرنے کے بعد) تمہارے ساتھ کیا گزری؟ ابولہب نے جواب دیا کہ تم سے جدا ہوتے ہی سخت عذاب میں پھنس گیا ہوں۔ سوائے اسکے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کے باعث اس میں سے مجھے پانی پلادیا جاتا ہے۔ (یعنی جن دو انگلیوں کے اشارے سے میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا اسی روز یعنی پیر کے دن مجھے انہی دو انگلیوں سے پانی پلادیا جاتا ہے۔
جس سے میرے عذاب میں کمی ہوجاتی ہے)۔یاد رہے کہ یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ جو شخص کفرو شرک کی حالت میں مرے تو اسے مرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ سے کسی بھی اچھے کام کا اجرو ثواب نہیں دیا جاتا۔ مگر صرف ایک عمل ایسا ہے جو اگر کافر و مشرک بھی کرے تو اسے بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مرنے کے بعد بھی اجرو ثواب ملتا ہے اور وہ عمل ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف اپنا بھتیجا سمجھ کر خوشی منائی، نبی سمجھ کر نہیں۔۔۔مگر پھر بھی اسے اجر ملا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہم پر سب سے بڑی نعمت ہے۔شریعت کے قوانین اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا غم کرنے کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی کو پسند کرے۔