اخلاقِ نبویؐ اور امت کا اخلاقی زوال
آج کا دن مسلم اُمہ کے لیے ایک خاص دن ہے۔ دنیا میں آخری نبوت کی تکمیل کے لیے ایک ایسی عظیم اور پاک ہستی دنیا میں آئی جسے رہتی دنیا کے لیے مثال بننا تھا۔ ہمارے پیا رے نبیؐ حضرت محمدﷺکی ولادت با سعا دت آج کے مبارک دن میں ہو ئی جس کا احترام ساری دنیا میں کیا جاتا ہے۔ صدیاں گزر گئیں لیکن آج بھی پیارے نبیؐ کا اخلاق زندہ ہے۔ اللہ کی عبادت تو دنیا کی ساری مخلوق کرتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے عبادت سے بھی زیادہ جس چیز کی فضیلت بیا ن کی ہے۔ وہ اخلاقیات ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت اخلاقیات کی ہے۔ ہمارے پیغمبرآخرا الزمانؐ کو تمام انبیاء پر اس لیے بھی فو قیت حا صل ہے کہ ہمارے نبیؐ کا اخلاق مثالی تھا۔ انہوں نے اپنے اخلاق سے بد ترین دشمنوں کا دل بھی مو ہ لیا تھا۔ یہودی، عیسائی، کافر، مجوسی سب آپؐ کے اخلاق کے گرویدہ تھے۔ اسلام آپؐ کے اخلاق سے تیزی سے پھیلا۔ دوسری قوموں میں بد اخلاقی عروج پر تھی۔ اخلاق سے ہی انسان کے تعلقات بنتے یا بگڑتے ہیں۔ اخلاق ہی ہمارے لیے جہنم یا جنت کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ جب حضورؐ کی ولادت با سعا دت ہو ئی تو سار ا عرب اخلاق با ختگی کا شکار تھا۔ قبیح رسم و رواج تھے۔ لوگ مختلف اقسام کے اخلاقی امراض میں مبتلا تھے۔ برا ئیاں اور گناہ عا م تھے۔ لوگوں میں حق سچ کی تمیز نہیں تھی۔ عورتوں سے بدسلوکی اور بیٹیوں کو زندہ مارنے کی عام روا یت تھی۔ دشمنیاں، نفرتیں، انتقام اور قتل و غارت یہ سب موجود تھے کیونکہ عرب میں موجود قبا ئل اخلاقیات سے بے بہرہ تھے۔ ہمارے بنیؐ کے آنے کے بعد لوگوں نے آپؐ کا اخلاقِ حسنہ دیکھا تو دائرہ اسلام میں جوق در جوق شا مل ہو تے گئے۔ اگر حضرت محمدؐ کے اخلاق پر بات کریں تو روشنائی ختم ہو سکتی ہے لیکن اگر آج کے اسِ خا ص مو قع پر ہم اُس عظیم المر تبت ہستی کی اُمت پر نظر ڈا لیں تو افسوس، ندا مت، شرمندگی اور ما یوسی کے سوِا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ویسے اس وقت دنیا میں 57اسلامی ممالت ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے تما م مسلمان ا پنے رہنما اور اپنے عظیم پیغمبرؐ کا راستہ فرا موش کر چکی ہے۔ تقریباََساری دنیا میں ہی مسلمان گمرا ہی کی ڈگر پر چل پڑے ہیں اور مغرب ، کفر و الحاد کی چمکتی ہو ئی ترقی، ہو شربا زندگی، ظا ہری کا میابی سے متا ثر ہر کر اسلام کے اصولوں کو چھوڑتی جا رہی ہے۔ مسلمان مغرب کے ہتھکنڈوں کا شکار ہو کر اپنی اخلاقیات کو فرا موش کر چکا ہے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ آج کا دن شان و شوکت سے منا ئیںگے۔ بنی گا لہ، ایوانِ وزیراعظم، پارلیمنٹ ہائوس، سینٹ اور ملک کی تمام اہم سرکاری غیر سرکاری عمارتوں ، شا ہرائوں پر لا ئٹنگ کی گئی ہے۔ قوا لیاں اور نعتیںپڑھی جا رہی ہیں ۔ ایوانوں میں مختلف پروگرامز منعقد کیے جا رہے ہیں۔ان میں اللہ رسولؐ کی چند با توں کے بعد وزیر اعظم، صدر، وزراء ، اپوزیشن لیڈر اور دیگر زعماء پھر ایک دوسرے پر الزام ترا شی کریں گے۔ پھر پریس کا نفرنسیں سجا کر ایکدوسرے پر کیچڑ اچھالی جا ئے گی، رکیک حملے ہو ں گے اور دلوں کی کدورت، حسد، بغض، کینہ، نفرت اُبل کر با ہر آجائے گی۔ جس عظیم ہستی نے سب کو معا ف کرنا سکھایا۔ درگزر کا درس دیا۔ نرمی اخوت محبت بھا ئی چارہ اپنانے کو کہا۔ رحمدلی کو سب سے بڑا وصف قرار دیا۔ اُسی کی نفی آپ کو آج قول و فعل میں دکھائی دے گی۔ ملاوٹ جھوٹ اقربا پروری سفا رش ریا کاری منا فقت خبا ثت سے سختی سے روکا گیا مگر یہ تمام عیوب و نقا ئص ہماری قوم کی پہچا ن بن گئے۔ عورتوں کی بے حُرمتی، معصوم بچیوں سے زیا دتی اور گنا ہوں سے آلودہ زندگی گزا رنا وطیرہ بنا لیا گیا ہے۔ اختیا را ت کا ناجائز فا ئدہ اور لوگوں کے حقوق سلب کرنا عا م سے بات ہو گئی ہے جس پر نہ ضمیر بیدار ہو تا ہے اور نہ احساسِ ندا مت ہو تا ہے۔ لوگ اپنا کام تک بددیانتی سے کرتے ہیں۔ ذمہ دا ریاں ادا کرنے سے بھا گتے ہیں۔ مال میں غبن دھوکہ دہی، بد دیا نتی، بے ایمانی اور حرام کما کر اولادوں کو کھلاتے ہیں پھر نا فرمان اور گستاخ ہو نے کی شکا یت کرتے ہیں۔ دوسروں کا حق حلال کا پیسہ کھا کر بے حیا ئی اور ڈھٹائی سے حیلے بہانے کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں، داڑھی بھی رکھتے ہیں۔ عورتیں پردہ بھی کرتی ہیں۔ روزے بھی رکھتے ہیں۔ زکوۃ بھی دیتے ہیں۔ صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں۔ عمرے حج بھی کرتے ہیں لیکن اکثریت حرام اور نا جائز کما ئی سے کرتے ہیں۔ کیا یہ ہمارے پیارے نبیؐ کی سُنتیں ہیں۔ اسی لئیے نہ چہروں پر نور ہو تا اور نہ دلوں میں سکون ہو تا۔ تقریباََ سب کچھ دکھاوے کے لیے ہو تا ہے۔ صرف نمود و نمائش کی خا طر کرتے ہیں۔ اگریہی سب کر کے بھی ایک مسلمان میں نیکی نرمی اور پاکیزگی پیدا نہ ہو تو یہ سب ریا کاری ہے۔ اگر صدقِ دل سے نبی پاکؐ کے نقشِ قدم پر چلتے اور اخلاق نبوی پر عمل کرتے تو آج مسلمان اتنے رسواء نہ ہوتے۔ مسلمانوں کے اخلاقی زوال کی وجہ سے آج اُمت مسلمہ پریشان اور دُکھی ہے۔ کاش مسلمان عمل سے خا لی نہ ہوتے تو آج یُوں خوف، خفت، ذلت اور بربادی کا سامان نہ بنتے۔