مہنگائی کا عفریت
جب سے پی ٹی آئی برسر اقتدار آئی ہے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی آرہی ہے پاکستان جیسا ملک جو تیل سے سوئی تک درآمد کرتا ہے اسے درآمدات پر 30 سے 40 فیصد ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے پاکستان میں جس تیزی سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن بن گئی ہے سر دست حکومت کی طرف سے مہنگائی پر قابو پانے کے لئے متعدد اقدامات کئے گئے ہیں وزیر اعظم آئے روز مہنگائی کا نوٹس لیتے ہیں وزیر اعظم کی زیر صدارت مہنگائی پر قابو پانے کے لئے گھنٹوں اجلاس جاری رہتے ہیں ہر اجلاس کے بعد نوید سنائی جاتی ہے لیکن مہنگائی پر قابو کی بجائے مزید اضافہ ہو جاتا ہے مہنگائی کا عفریت ‘ عوام کا خون چوسنے کے لئے کھڑا نظر آتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان دو سال سے عوام کو مہنگائی سے نہ گھبرانے کا درس دے رہے ہیں تو اجلاسوں میں بھی یہ بات کہی جانے لگی ہے کہ ہم اپوزیشن سے خوفزدہ نہیں لیکن مہنگائی ہماری اصل دشمن ہے اگرچہ ’’پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ‘‘ اپنے 26نکاتی ایجنڈے کے حصول کے لئے عوام کو سڑکوں پر لائی ہے لیکن اس کے ایجنڈے کا نمایاں نکتہ ہی مہنگائی ہے یہی وجہ وجہ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان حال عوام کی جانب سے پی ڈی ایم کی تحریک کو زبردست ’’رسپانس‘‘ مل رہا ہے اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گا کہ مہنگائی نے اپوزیشن کی تحریک میں جان ڈال دی ہے ملک بھر میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے آٹا، دالیں، چینی، سبزی اور گوشت سمیت کوئی بھی چیز سرکاری نرخ پر دستیاب نہیں اور سستے باز ار بھی عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہیں جب کہ دکاندار بھی سرکاری ریٹ لسٹ کی پروا نہیں کر تے ۔ اب تو وزیر اعظم نے مہنگائی پر قابو پانے میں ’’ٹائیگر فورس ‘‘ کی مدد حاصل کر لی ہے اب دیکھنا یہ ہے ٹائیگر فورس کیا گل کھلاتی ہے ؟آٹا بحران پھر شدت اختیار کر گیا ہے ، مہنگے داموں آٹے کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے وزیراعظم نے مہنگائی کیخلاف پالیسی پر سختی سے عملدرآمد کا اعلان کیا ہے لیکن حکومتی دعوؤں کے باوجود آٹے اور چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ملک بھر میں آٹے کا بحران اس حد تک شدت اختیار کر گیا ہے پشاور میں شہری شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی جمع کراکے آٹا مخصوص ڈیلرز سے خرید رہے ہیں۔ لاہور میں آٹے کے بحران کے باعث تندور مالکان نے سادہ روٹی کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے بعد روٹی کی قیمت 10 روپے کئے جانے کا امکان ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے پچھلے دو سال کے دوران مہنگائی پر 12 بار نوٹس لیا ہے لیکن قیمتیں کم نہیں ہوئیں ۔ عوام ذخیرہ اندوزوں اور مافیاز کے خلاف حقیقی ایکشن کا انتظار کر رہے ہیں ۔وزیراعظم عمران خان کے بار بار کے نوٹس پر نوٹس لینے کے باوجود قیمتوں کو استحکام نہیں ملا اس ظاہر ہوتا ہے ’’گورنس ‘‘ میں کہیں نہ کہیں کوئی کمی ہے ۔ 2020ء کے دوران وزیراعظم عمران خان نے بڑھتی مہنگائی کا چھ بار نوٹس لیا۔ ٹائیگر فورس کو قیمتوں کی نگرانی کا ٹاسک دینے سے ایک روز پہلے وزیراعظم نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ مہنگائی کی صورتحال پر اجلاس طلب ک کر لیا ہے۔اس سے پہلے وزیراعظم نے 14 مئی 2020ء کو مہنگائی کے معاملے پرائس کنٹرول کمیٹی کا اجلاس بلایا تھا۔ رواں سال 25 فروری کو بھی وزیراعظم کی صدارت میں اعلی ٰسطح اجلاس میں غریب اور تنخواہ دار طبقے کو ریلیف اور اشیائے ضروریہ کی سستے داموں فراہمی کے حوالے سے اقدامات کا جائزہ لیا گیا تھا۔وزیراعظم نے 9 فروری 2020ء کو ایک ٹویٹ میں مہنگائی میں اضافے کے باعث حکومت پر تنقید کا نوٹس لیا تھا۔ معاشی ٹیم کو 15 روز میں آٹے، چینی، چاول اور دالوں کی قیمتوں میں 15 فیصد کمی لانے کی ہدایت کی گئی تھی۔اس سے پہلے 29 جنوری کو کابینہ اجلاس میں وزیراعظم نے مہنگائی پر تحفظات کا اظہار کیا اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کی ہدایت کی۔20 جنوری کو اسلا م آباد میں تقریب سے خطاب میں وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ ملک میں مہنگائی ہے۔ ہر ہفتے دیکھ رہے ہیں کہ کن کن طریقوں سے مہنگائی کنٹرول کر سکتے ہیں۔17 جنوری کو بھی وزیراعظم نے غذائی اشیا کی قیمتوں میں کمی کی تجاویز طلب کی تھیں۔ اس سے قبل پچھلے برس یعنی 2019ء میں وزیراعظم عمران خان نے کم از کم پانچ بار بڑھتی قیمتوں پر نوٹس لیا تھا۔20 اکتوبر 2019ء کو وزیراعظم نے مہنگائی کے ایشو پر برہمی کا اظہار کیا جبکہ 18 اکتوبر کو اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا جائزہ لینے اور افراط زر پر قابو پانے کے حوالے سے اجلاس ہوا۔31 جولائی 2019ء کو وزیراعظم نے روٹی اور نان مہنگے ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے پرانی قیمتیں بحال کرنے کا حکم دیا۔ وزیراعظم نے 27 جون 2019ء کو بڑھتی مہنگائی کے خلاف خصوصی مہم شروع کرنے کی ہدایت کی۔وزیراعظم عمران خان نے 11 اپریل 2019ء کو ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیا اور قیمتوں میں کمی کے لئے اقدامات کی ہدایت کی ۔وزیرِ اعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس کے بعد بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں خصوصاً گندم اور چینی کی دستیابی اور قیمتوں کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے ا جلاس کی صدارت کی اور بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانے کے لئے ہر ممکنہ انتظامی اقدام اٹھانے کی ہدایات جاری کیں جاری کیں لیکن ان احکامت کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا اجلاس کو بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں 10نومبر سے کرشنگ سیزن کا آغاز کر دیا جائے گا۔ موجود سٹاک، درآمد کی جانے والی چینی اور کرشنگ سیزن کے جلدی شروع ہونے سے نہ صرف چینی کی وافر فراہمی میسر آئے گی بلکہ اس کی قیمتوں میں کمی آئے گی ۔ وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں بھی وزراء نے بڑھتی ہوئی مہنگائی پر کھل کر کر بات کی ۔ مراد سعید، شیخ رشید اور فیصل واوڈا سمیت دیگر وزراء نے مہنگائی کے حوالے سے سوالات اٹھا دئیے وزیراعظم نے وزرا کو مہنگائی میں کمی کیلئے ہنگامی اقدامات کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ حکومت جلد ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع کرے گی۔ وفاقی وزیر مراد سعید نے ندیم بابر اور عمر ایوب پر کھل کر تنقید کی۔تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں حکومتی ارکان قومی اسمبلی ثناء اللہ مستی خیل اور نور عالم خان وفاقی کابینہ کے ارکان پر برس پڑے ثناء اللہ مستی خیل نے کہا کہ ’’ میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر نہیں آزاد منتخب ہوا ہوں حکومت اور عوام کے لیے حالات بہتر ہوتے نظر نہیں آرہے، لوگ گندے انڈے مارنے کے لیے تیار ہیں، ملک میں خوراک کا بحران پیدا ہوتا نظر آرہا ہے ثناء اللہ مستی خیل نے کہا کہ’’ جناب وزیر اعظم آپ کی ٹیم نکمے وزراء پر مشتمل ہے ان کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے جب تک وزیر اعظم اپنی ٹیم ٹھیک نہیں کریں گے صورت حال بہتر نہیں ہو سکتی۔جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر مہنگائی پر قابو پانے بارے کوئی فیصلہ کر سکتی ہے۔