پی ایم سی اور پی ایم ڈی سی
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈنیٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) اورپاکستان میڈیکل کونسل کے درمیان عرصہ دراز سے جاری رسہ کشی بالاآخر اختتام پذیر ہو گئی۔حکومت نے صدارتی آرڈننس کے ذریعے پی ایم ڈی سی تحلیل کرکے پاکستان میڈیکل کونسل بنائی تھی۔ حکومت کے اس اقدام کے خلاف پی ایم ڈی سی کے ملازمین نے ملازمت سے برطرفی کے بعدداد رسی کے لئے عدالت عالیہ سے رجوع کر لیاتھا۔ عدالت نے آرڈننس کالعدم کرتے ہوئے پی ایم ڈی سی کی بحالی کے ساتھ تمام برطرف ملازمین کو بھی بحال کر دیا تھا۔حکومت نے پی ایم سی کے خاتمے کو اپنی سبکی تصور کرتے ہوئے پی ایم ڈی سی کو ایک بار پھر تحلیل کرنے کے لئے قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے پی ایم سی کی بحالی کے لئے قانون کی منظوری کے لئے معاملہ پارلمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں لے آئے ۔بل کی منظور ی کے بعد ایک مرتبہ پھر پی ایم ڈی سی کا خاتمہ ہو گیا ہے جس کے بعد پی ایم ڈی سی کے ملازمین کیلئے پی ایم ڈی سی کی بحالی کا عدالتی راستہ بند ہو چکاہے ۔وفاقی وزارت صحت نے پی ایم ڈی سی کے دفاتر کی تالہ بندی کر دی ہے۔سابقہ پی ایم ڈی سی نے گذشتہ دو سالوں کے دوران بہت سے نشیب و فراز دیکھے اور عدالتی جنگ جیتنے کے بعد اب اس کی بحالی کے تمام راستے بند ہوچکے ہیں۔اب پی ایم سی کونسل کے نئے انتخابات ہونے ہیں کونسل کے چیئرمین اور ارکان کو منتخب کیا جانا رہ گیا ہے۔اسی لئے تو کہا جاتا ہے قانون میں بڑی طاقت ہے اگر اس کا درست استعمال کیا جائے تو دوسرا کوئی راستہ باقی نہیں رہ جاتا۔کسی بھی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے میں کام کرنے والے ملازمین کو اچانک ملازمت سے برطرف کر دیا جائے تو ان کے لئے ماسوائے قانونی راستے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔اب پی ایم سی معرض وجود میں تو آگئی لیکن اسے بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔اس کے لئے سب سے بڑا مسئلہ پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کے معاملات اور خاص طور پر داخلوں کی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہو گی۔پی ایم سی نے اپنی تحلیل سے قبل بہت سے میڈیکل کالجز کی انسپکشن کرائی لیکن جب عدالتی حکم پر پی ایم ڈی سی کو بحال کیا گیا تو اس کی انتظامیہ نے پی ایم سی کی تحلیل کے ساتھ اس کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات اورخاص طور پر جن جن پرائیویٹ میڈیکل کالجوںکی انسپکشن پی ایم سی نے کی تھی انہیں دوبارہ سے انسپکشن کرانے کی ہدایات دے دیں۔حالانکہ دیکھا جائے تو جن ڈاکٹرز نے ان اداروںکی انسپکشن کی تھی تو کیا وہ کالجز کی انسپکشن کیلئے کوالیفائی نہیں کرتے تھے ایک بے معانی عذر رکھتے ہوئے از سر نو انسپکشن کرانے کی ہدایت کر دی۔پی ایم ڈی سی نے کالجز کی انسپکشن کو تو ضروری سمجھا۔انہیں اس بات کا ذرا خیال نہیں آیا کہ جن جن کالجز میں نشستیں خالی رہ گئیں انہیں پر کرنا بھی اس کے فرائض میں شامل تھا۔نتیجہ یہ نکلا اب تک بہت سے کالجوںمیں ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے نشستیں خالی پڑی ہیں۔اگرچہ ایڈمیشن پالیسی کا نفاذ تو سابق چیف جسٹس صاحب کرگئے تھے توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب پی ایم ڈی سی یا پی ایم سی نے پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے جو معیار مقرر رکھا ہے کوئی میڈیکل کالج اس کے مطابق اگر طلبہ کواپنے ادارے میں داخلہ دے دے تو اس میں کیا قباحت ہے۔فیس کی حد تک یہ درست تھا جو تمام کالجوں کے لئے مقرر کر دی گئی ہے۔کالجز میں نشستیں خالی رہیں یا نہ رہیں فکلیٹی کے ارکان کو جو مشاہرہ دیا جاتا ہے سیٹوں کے خالی رہ جانے سے مشاہروں میں تو کمی نہیں ہو جاتی ۔لہذا پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے اخراجات تو اتنے ہیں۔حال ہی میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی نمائندہ تنظیم پامی کے اجلا س میں اس امر پر تشویس ظاہر کی گئی ہے کہ ہر سال نت نئے پروفرمامے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی انسپکشن کے لئے جاری کر دیئے جاتے ہیں۔تو کیا سرکاری میڈیکل کالجز کے یہی اصول کارفرما ہیں؟حکومت کی صحت کارڈ پالیسی کے ذریعے ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی بہت بڑی تعداد پرائیویٹ میڈیکل کالجز سے محلقہ پرائیویٹ ہسپتالوںمیں علاج معالجہ کے لئے آ رہے ہیں کوئی تو وجہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں جانے کی بجائے پرائیویٹ ہسپتالوںمیں صحت کارڈ مریض زیادہ تعداد میں آ رہے ہیں۔سرکاری ہسپتالو ں میں مطلوبہ سہولتوں کا فقدان ہے یا عوام سرکاری ہسپتالوں میں ہونے والے علاج سے مطمن نہیں ہیں۔پی ایم سی کے معرض وجود میں آنے کے بعد پی ایم ڈی سی کے دفاتر کی تالہ بند کر دی گئی ہے۔نئی انتظامیہ کو وہاں پہلے سے کام کرنے والے ملازمین کے مستقبل کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے کوئی حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ محض سنی سنائی باتوں سے کسی کو بے روزگار کرنے سے حکومت کی بدنامی ہو گی لہذا پی ایم سی کو ملازمین کا ریکارڈ ملازمت غیر تسلی بخش ہونے کی صورت میں اس طرح کے ملازمین کو برطرف کرنا چاہیے ۔جو ملازمین پنشن کے اہل ہوں انہیں پوری حقوق دینے کے بعد فارغ کیا جانا چاہیے۔اگر یونہی کسی کو ملازمت سے برطرف کیا گیا تو ملازمین کے لئے عدالتی فورم تو پھر بھی موجود ہے یا وہ فیڈرل سروس ٹربیونل میں اپنی داد رسی کے حصول کے لئے جا سکیں گے۔پی ایم سی کو ایک تو داخلہ پالیسی پر ضرور نظرثانی کرنی چاہیے تاکہ کسی کالج میں کوئی سیٹ خالی نہ رہ جائے پی ایم سی اب ایک بااختیار ادارہ بنا چکا ہے اس کی کونسل اپنے چارٹر کے مطابق فیصلے کرنے میں بھی آزاد ہو گئی انہیں صرف وہی اقدا مات کرنے چاہیں جو ملک میں میڈیکل کی تعلیم کے معیار میں بہتری لانے میں کارگر ثابت ہو سکیں ۔ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان میڈیکل کونسل پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کی انتظامیہ سے فرینڈلی راہ و رسم کی فضا کا ماحول پیدا کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرئے گی تاکہ نہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے وقت کا ضیائع ہو اور نہ ہی پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے ساتھ محاذآرائی جیسی صورت حال پید ا ہو سکے۔