ہفتہ‘ 19؍ صفرالمظفر 1441ھ ‘ 19 ؍ اکتوبر 2019 ء
لاڑکانہ الیکشن میں پی پی کو اپنے ہی گھر میں شکست‘ جی ڈی اے کے معظم عباسی کامیاب۔
اب تک تو غالب یہی خیال تھا کہ آج بھی بھٹو زندہ ہے‘ مگر جمیل سومرو کی شکست نے بھٹو صاحب کے زندہ ہونے کو شکوک و شبہات میں بدل دیا ہے۔ لاڑکانہ پیپلزپارٹی کا گڑھ مانا جاتا ہے‘ وہاں کے نواحی گائوں نوڈیرو میں بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں محواستراحت ہیں‘ اسکے باوجود پیپلزپارٹی کے امیدوار کا ہوم گرائونڈ میں شکست کھانا پیپلزپارٹی کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ اگر وہ واقعی زندہ ہوتے جیسا کہ پیپلزپارٹی کے جیالے کہتے ہیں کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا‘ آج بھی بھٹو زندہ ہے‘ تو انہیں شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس شکست کو دھاندلی قرار دیتے ہوئے پارٹی کا سابقہ رویہ برقرار رکھا۔ کمال ہے اگر انکا امیدوار جیت جاتا تو یہی انتخاب صاف شفاف اور ایمانداری پر مبنی ہوتا‘ لیکن شکست پر دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹنا ہماری سیاسی جماعتوں کا وطیرہ ہے۔ بہتر ہوتا کہ بلاول صاحب دھاندلی کا الزام لگانے کے بجائے علاقے میں اپنی جماعت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے کیونکہ اب عوام باشعور ہوگئے ہیں وہ کسی کے نام کی پوجا نہیں کرتے بلکہ کام دیکھ کر ہی اپنے ضمیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اگر اپنے نانا کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں عوام کو عملی طور پر کام کرکے دکھانا ہوگا اور انہیں ریلیف دینا ہوگا۔ انہیں اتنی سمجھ ضرور ہونی چاہیے کہ بھٹو کا نام انکی سیاست میں تو کام آسکتا ہے لیکن غریب عوام کا کسی طرح بھی پیٹ نہیں بھر سکتا۔ جس طرح انکے امیدوار نے شکست فاش کھائی ہے‘ اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کے دلوں میں زندہ رہنے والے بھٹو کو انکے اپنوں نے ہی مار ڈالا۔
٭٭٭٭
برطانوی دور کی معروف ’’ٹرام‘‘ کو لاہور میں شروع کرنے کا فیصلہ
شنید ہے کہ پنجاب کے محکمہ ٹرانسپورٹ نے برطانوی دور کی مشہور زمانہ ’’ٹرام‘‘ سروس کو جسے ختم ہوئے عرصہ گزر گیا ہے‘ متعارف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جہاں تک ہماری یادداشت کا تعلق ہے، تقسیم کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والے بڑے شہروں میں صرف کراچی میں ٹرام چلا کرتی تھی۔ پھر کراچی کے لوگوں نے اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جو سرکلر ریلوے کے ساتھ ہوا۔ ٹرام عمدہ ذریعہ آمدورفت تھا۔ زندہ قومیں قدیم میں سے جدید پیدا کرنے کا خاص ذوق اور ملکہ رکھتی ہیں جبکہ ہم نے آزادی ملتے ہی مادر پدر آزادی کی روش اختیار کر لی ، قومی اثاثوں کا بُرا حال کیا۔ ٹرام کی پٹڑیاں انجن ، ڈبے کیا ہوئے، کوئی جان مار قسم کا محقق ہی ان کا انجام بتا سکتا ہے۔ جب موٹروے لاہور ، اسلام آباد بنانا شروع ہوئی تو صوبائی وزیر اعلیٰ نواز شریف تھے ۔ تعمیر کا ٹھیکہ ڈائیوو کو ملا۔ ابتدا میں دونوں طرف چار چار لین کی گنجائش رکھی گئی، دوران تعمیر مسلم لیگ ن کی جگہ پیپلز پارٹی آ گئی۔ پارٹی نے آتے ہی ہر اُس منصوبے کو ختم کرنے پر کمر باندھ لی، جو پہلی حکومت نے بنائے تھے اور جن پر عمل ہو رہا تھا۔ مرحومہ محترمہ نے آتے ہی حکم دیا موٹروے کا منصوبہ ختم ، فائل گٹر میں پھینک دو، کچھ لوگوں نے ہمت کر کے مرحومہ کے گوش گزار کیا کہ اب زمانہ سنگل سڑکوں کا نہیں رہا تعمیر و ترقی کے لیے عمدہ ذرائع رسل و رسائل ضروری ہیں۔ آج کا زمانہ موٹرویز کا زمانہ ہے۔ بڑی مشکل سے مانیں مگر اس شرط پر کہ ہر جانب ایک ایک لین کم کر دی جائے گی۔ آج اس موٹروے نے اسلام آباد ہی نہیں شمالی علاقوں سے جنوب کو جانے والی ساری ٹریفک کا بوجھ اُٹھا رکھا ہے۔ موٹروے کی کوالٹی کا یہ عالم ہے کہ جنگی یا ہنگامی صورت میں بطور رن وے بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ شنید ہے کہ اُس زمانے میں بھارت سے لوگ موٹروے دیکھنے پاکستان آیا کرتے تھے اس کے بعد پھر ہمیں بریکیں لگ گئیں اور کوئی نئی چیز نہ بنا پائے۔ چار پانچ سال پہلے میٹروبس ، بنی توقع سے زیادہ کامیاب رہی، پھر اُس وقت کی حکومت نے اورنج لائن ٹرین کا ضخیم منصوبہ شروع کیا۔ لیکن اس کے راستے میں اتنی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں کہ جس ٹرین نے -31 دسمبر 2017 ء سے چلنا شروع کرنا تھا وہ ابھی تک تکمیل کی منزل سے بہت دور ہے۔ حالانکہ یہ ایک فلاحی منصوبہ تھا۔ بنانے والوں نے گھر نہیں لے جانا تھا۔ ہماری موٹروے کے بعد بھارت میں موٹرویز کا جال بچھ گیا۔ تمام بڑے بڑے شہروں میں ریلوے چلنے لگی ہے۔ نہ کسی حکم امتناعی اور نہ افتتاحی پلیٹ پر جھگڑے کی خبر سُنی۔ اگر ٹرام زندہ ہو جائے تو عام آدمی استفادہ کریگا اور بنانے والوں کو دُعا دیگا۔
٭٭٭٭٭
بھارتی وزیر سڑکیں ہیمامالنی کی طرح بنانے پر کمربستہ
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے وزیر ایس پی شرما نے ووٹروں سے وعدہ کیا ہے کہ بھوپال کی سڑکوں پر گڑھے ختم کر کے جلد ہر سڑک کو اداکارہ ہیما مالنی کے گالوں کی طرح خوبصورت بنا دیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ کمل ناتھ کی ہدایت پر تمام سڑکوں کی 15 سے 20 دنوں میں مرمت کر دی جائے گی اور انہیں ہیما مالنی کے گالوں کی طرح چمکا دیا جائے گا۔ مدہیہ پردیش کے صوبائی وزیر کے اس بیان نے کئی سوال کھڑے کر دئیے ہیں مثلاً یہ نہیں معلوم کہ سڑکوں کی مرمت کے لیے ٹینڈر طلب کرتے وقت ’’ہیما مالنی کی گالوں‘‘ والی شرط موجود ہے یا نہیں، اگر ہے ، تو ٹھیکیدار کو ہیما مالنی کی گالوں کا کوئی نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ٹھیکیدار کو ادائیگی کا چیک دیتے وقت اُسے دستاویزات کے ساتھ چیف انجینئر کا یہ سرٹیفکیٹ لگانے کا مطالبہ کر دیا جائے کہ ٹھیکیدار نے ٹینڈر کی شرائط کو سو فیصد پورا کیا جائے۔ ہمارے ایک دوست نے یہ نقطہ اُٹھا دیا ہے کہ خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ہیما مالنی کی کس عمر کی گالوں کو شرماتی ہوئی سڑکیں مرمت کرنا ہوں گی ، جوانی کی، جب وہ ’’لاکھوں‘‘ دلوں کی ملکہ تھی ، یا جب وہ بڈھی کھوسٹ ہو کر گھر بیٹھ گئی ۔ ہیما مالنی اپنے دور کی بہت بڑی فنکار ہ تھی، اُس نے جس فلم میں بھی کام کیا ہٹ ہوئی لیکن ظاہر ہے کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ بھارت کے معروف کالم نگار اور سفارت کار کلدیپ نیر بھٹو مرحوم کا انٹرویو کرنے پاکستان آئے ، پروٹوکول پر مامور عملے نے پوچھا ہمارے لائق کوئی خدمت ؟ جواب دیا بے بی نور جہاں سے ملا دیجئے۔ پروٹوکول کے عملے نے بھاگ دوڑ کرکے ملاقات کا اہتمام کر دیا۔ کلدیپ نیر لکھتے ہیں کہ جب میں کمرے میں داخل ہوا تو میرے سامنے دو موٹی موٹی ’بلکہ کسی حد تک بھدی‘‘ خواتین بیٹھی تھیں۔ مجھے شناخت کرنا مشکل ہو گیا کہ ان میں نور جہاں کون ہے اور اگر ان میں سے کوئی ایک نور جہاں ہے تو وہ ’’جگنو‘‘ والی بے بی نور جہاں کہاں ہے جس کے حسن اور آواز کا جادو پورے ہندوستان میں چلتا تھا۔ مہمان کے بقول بے بی اب میڈم بن چکی تھیں، وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ میلہ اور مغل اعظم کے دلیپ کمار آج نشانِ عبرت ہیں۔ مدھیہ پردیش کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اگر واقعی ہیما مالنی کی گالوں کی طرح چمکنے لگیں تو لوگ اُن پر چلنے اور گاڑیاں دوڑانے کی بجائے ماتھا ٹیکنے لگیں گے۔
٭٭٭٭٭