2013ء کے الیکشن کے بعد جب نوازشریف نے حکومت سنبھالی تو انہوں نے سی پیک کے آغاز کی خوشخبری دیتے ہوئے قوم کو بتایا کہ چینی صدر پاکستان کا دورہ کریں گے جس میں کئی معاہدوں پر دستخط ہوں گے اور ان معاہدوں کی تکمیل سے پاکستان خطے میں صف اول کا ملک بن جائے گا لیکن اس وقت اپوزیشن میں تحریک انصاف تھی جس کے پاس قومی اسمبلی میں مناسب نشستیں تھیں جس سے وہ اپنے تمام جائز مطالبات پارلیمنٹ میں ہی منواسکتے تھے لیکن انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری سے ملکر اسلام آباد کی جانب 14اگست 2014ء کو مارچ کا آغاز کیا اور اس وقت کی حکومت یہ باور کراتی رہی کہ یہ وقت دھرنوں اور لانگ مارچ کا نہیں ہے کیونکہ چینی صدر پاکستان کا دورہ کرنیوالے ہیں اور مسلح افواج وزیرستان سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہے اور آئے روز دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں اسی لئے دھرنا موخر کرکے معاملہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے لیکن عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنوں اور لانگ مارچ کے اپنے پروگرام میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور حکومت نے بھی انہیں اپنے حال پر چھوڑ کر پرامن احتجاج کرنے دیا اور کہیں بھی اپوزیشن کے لئے زمین تنگ نہیں کی حتٰی کہ مظاہرین نے پارلیمنٹ کے مین گیٹ توڑ دیا۔ اس کے بعد مظاہرین وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کے قریب پہنچ گئے تھے اور بار بار یہی اعلانات ہورہے تھے کہ عوام راستے میں آنیوالی ہر رکاوٹ عبور کرجائیں گے۔ حکومت بار بار مذاکرات کی دعوت دے رہی تھی لیکن دھرنوں کا اختتام حکومت سے مذاکرات کے بجائے عدلیہ کی مداخلت پر ہوا۔واضح رہے کہ الیکشن 2013ء کے نتائج پر سب سے زیادہ اعتراض پی ٹی آئی نے کیا تھا
اس وقت مسئلہ کشمیر اپنے عروج پر ہے اور ساتھ ہی ساتھ ملکی معاشی حالت بدترین ہے اور پاکستان خارجی طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے برسرپیکار ہے۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیلئے بھرپور تیاریاں کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے پاس پارلیمنٹ میں اتنی نشستیں نہیں ہیں کہ وہ اپنی بات موثر طریقے سے منواسکیں ۔ الیکشن 2018ء پر پی ٹی آئی مطمئن ہے جبکہ نتائج کئی پارٹیاں مسترد کرچکی ہیں لیکن پارلیمنٹ میں سب بیٹھی ہیں اور مولانا فضل الرحمان کو مکمل حمایت کا یقین دلارہی ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ آگے جاکر مولانا فضل الرحمان کا اسلام آباد لانگ مارچ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور انکی منصوبہ بندی کس طرح کی ہے اور حکومت اس سے کس طرح سے نمٹ سکتی ہے لیکن میں راستے روکنے‘ سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے سخت خلاف ہوں۔ کوئی بھی لانگ مارچ یا دھرنا پرامن طریقے سے ہو تو یہ جمہوری حق ہے اور اگر انتشار و بدامنی کا سبب ہوگا تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نجی و سرکاری املاک کا تحفظ کرکے عوام کی جان و مال کو محفوظ بنائے۔
مولانا فضل الرحمان اپنی چند نشستوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں کوئی مناسب آواز نہیں رکھتے البتہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ ملکر انہیں مکمل سپورٹ کریں تو حکومت سے ہر بات منوائی جاسکتی ہے۔ میرے خیال میں تو مولانا فضل الرحمان کو ساری اپوزیشن کو اکٹھا کرکے پارلیمنٹ میں موثر انداز میں اپنے مطالبات پر پہلے بات کرنی چاہئے اس کے بعد بھی اگر بات نہ بنے تو جے یو آئی ‘ پیپلزپارٹی اور ن لیگ ملکر اسمبلیوں سے استعفٰی دیکر سڑکوں پر آنے کا اعلان کریں تو بہتر ہے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر سڑکوں پر آنے کے آپشن کا پہلے استعمال کرنا درست نہیں۔ دوسری جانب سے حکومت کو بھی اس معاملے کو سنجیدہ لینا چاہئے اور حکومت اپنے ترشرو وزراء کے بجائے سنجیدہ لوگوں کو اس معاملے میں سامنے لاکر فوری طور پر بات چیت کا آغاز کرے ۔ جس کی ابتداء ہوچکی ہے۔ حکومت نے پرویز خٹک کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی بنادی ہے مولانا کو مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے۔
دھرنا اگر پی ٹی آئی کا حق تھا تو مولانا فضل الرحمان کا بھی حق ہے البتہ مذاکرات سے لانگ مارچ اور دھرنا ہونے سے پہلے مسئلہ حل کرالینا چاہئے اور اگر دھرنا نہیں رک سکتا تو کم از کم مذاکرات سے یہ بات تو لازمی طور پر طے ہونی چاہئے کہ دھرنا اور لانگ مارچ مکمل طور پر پرامن ہوگا اور مجمع ڈی چوک پر یا کسی بھی ایسی جگہ اپنا پرامن احتجاج کا حق استعمال کرے گا جہاں پر عوام کو مشکلات نہ ہوں اور نہ ہی عوام کی جان و مال کے تحفظ کے کوئی مسائل پیدا ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے نتائج تو اﷲ پاک کو ہی معلوم ہیں لیکن جو ہر عام آدمی کو معلوم ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے آنے سے اب تک مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، عوام پریشان حال ہیں ۔ مجھے ڈر ہے کہ یہی عوام اگر مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کا رخ کر لیتے ہیں تو حکومت کے لیے مسائل پیدا ہونگے ۔ میری جے یو آئی کی پوری قیادت سے اپیل ہے کہ خدارا پرامن احتجاج کا حق استعمال کریں اور کسی بھی صورت عوام کی جان و مال کا مسئلہ پیدا نہیں ہونا چاہئے۔
٭٭٭٭
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024