عرب و عجم کی کشمکش صدیوں نہیں ،ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہے۔ اس لحاظ سے وزیر اعظم عمران خاں نے ایک کٹھن سفر اختیار کرنے کا فیصلہ کیا کہ ایران اور سعودیہ جیسے دو اسلامی بھائیوں کو باہم لڑنے سے روکا جائے۔ امت مسلمہ کے اندر اور عالمی سطح پر دونوں ممالک کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اسی کے تناظر میں بعض طاقتیں نہیں چاہتیں کہ ان د و ملکوں کے مابین امن قائم ہو سکے۔ مسلمانوں کو آپس میں لڑائیں ۔ ان میں پھوٹ ڈلوائو اور ان پر اپنا حکم چلائو۔ یہ ہے اغیار کی پالیسی۔وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ دونوں ملکوں کے مابین ثالثی کروائیں گے۔ اس مشن پر پہلے وہ ایران گئے۔ پھر دو دن بعد سعودی عرب۔ دونوں ملکوںنے عمران خان کی نیک تمنائوں کا خیر مقدم کیا اور اس امر پر اصولی طور پرآمادگی ظاہر کی کہ ان کے مابین تنازعات کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کیا جائے گا۔یہ ایک مثبت پیش رفت تھی اور وزیراعظم عمران کے لئے ایک حوصلہ ا فزا رد عمل!
عمران خان نے یہ بات کچھ ڈھکی چھپی نہیں رہنے دی کہ وہ تنازعات کا حل جنگ سے نہیں باہم بات چیت سے تلاش کے حامی ہیں، اقتدار میں آتے ہی انہوں نے بھارت کو پیش کش کی وہ ایک قدم آگے بڑھائے گا تو پاکستان دو قد م ا ٓگے بڑھتا نظر آئے گا۔ مگر افسوس کہ بھارت نے ان کی امن کی اس خواہش کو کمزوری سمجھ لیا اور بار بار جارحانہ رویہ ہی اختیار کیا۔مگر دوسری طرف دو اسلامی ملکوں کے درمیان نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ سعودی عرب میں تیل کے ذخائر پر دو ڈرون میزائل گرے اور ان تنصیبات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ دونوں ملک پہلے ہی یمن کے قضیہ کی وجہ سے پراکسی جنگ میں الجھے ہوئے تھے۔ا ب خطرہ پیدا ہواکہ کہیں براہ راست مڈ بھیڑ نہ ہو جائے۔ یہ صورت حال پورے خطے کے لئے سنگین نوعیت کی تھی ۔ چنانچہ وزیرا عظم عمران خان نے انشی ایٹو لیا اور اس کام میں ہاتھ ڈالا جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ ابھی شٹل ڈپلومیسی کا آغازہواہے اس لئے مثبت نتائج کے حصول میں وقت لگے گا مگر ا س عمل کا شرو ع ہوجانا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ خطہ اب جنگ کے خطرات سے محفوظ ہو گیا ہے۔وزیر اعظم کے ان دوروں سے ایک بات ا ور ثابت ہوئی کہ پاکستان پر یہ جو تنہائی کا الزام لگایا جا رہا تھا، وہ باطل ہو گیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم کی تہران اور ریاض میں پذیرائی ہو رہی تھی اورا س سے قبل وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی اجلاس میں جو تاریخی خطاب کیا جس پر ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد، ترکی کے صدر طیب اردوان نے عمران خان کو گلے لگا لیا۔ ان کے ماتھے پر بوسہ دیا اور ان کے موقف کی کھل کر تائید کا عزم دہرایا۔پاکستان عالمی برادری میں اسلئے بھی تنہا نہیں ہے کہ دنیا کی دو سپر پاورز چین اور روس اس کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اور چین نے تو سی پیک کی رفتار تیز تر کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے جس پر امریکہ ، یورپ اور بھارت پر بوکھلاہٹ طاری ہو گئی ہے۔پاکستان اس لئے بھی تنہا نہیں ہے کہ برطانیہ کے شاہی جوڑے نے پاکستان کا پانچ دن کا تفریحی دورہ کیا ہے ۔ وہ پاکستانی لباس پہنے رہے اور عوام میں ہر جگہ گھل مل گئے۔اگر پاکستان تنہا ہوتا یا اس میں سکیورٹی کی صورت حال مخدوش ہو تی تو شاہی جوڑا یہاں کیسے دورے پر آتا ۔پاکستان اس لئے بھی تنہا نہیں ہے کہ سری لنکا کی ٹیم نے دس برس بعد پاکستان میں آکر میچ کھیلے ہیں اور کراچی اور لاہور میں ہر جگہ شائقین کا رش لگا رہا۔پاکستان مسلم امہ میں واحد ایٹمی طاقت ہے۔ عالمی سطح پر ا سکی اسٹریٹیجک اہمیت اپنی جگہ پر ایک مسلمہ امر ہے۔ اسے نظر انداز کرناکسی کے لیے ممکن نہیں، امریکی صدر ٹرمپ کے دل میں کیا ہے۔ان کی اصل نیت کیا ہے مگر ان کی زبان پر تو یہی ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر پر ثالث بننے کو تیار ہیں۔ وہ عمران خان کوگریٹ لیڈر کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔پاکستان کی دوستی کا جو بھی دم بھرتا ہے۔ اسے سزا دینے کے لئے ایک دنیا پل پڑتی ہے۔ ترکی کو شام میں کردوں کا مسئلہ در پیش ہے جہاں سے ترکی کو عدم استحکام سے دو چار کیا جاتا ہے۔ ترکی نے جیسے ہی کرد باغیوں کے خلاف کاروا ئی کی تو امریکی صدر ٹرمپ کی زبان نے زہر اگلنا شروع کردیا۔ ا سنے ترک صدر کو ایسی زبان میں خط لکھا کہ عالمی میڈیا کو وائٹ ہائوس سے رابطہ کر کے یہ یقین کرنا پڑا کہ یہ خط واقعی ٹرمپ صاحب کا ہے۔ امریکہ کی شہہ پر فرانس جرمنی اور برطانیہ ایک ہو گئے ہیں اور ترکی پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے لے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ امریکی صدر، اردوان کو دہشت گرد کہتا ہے ۔ یہ ایسی منافقت ہے جو ہر ایک کو نظر آتی ہے۔ بھارت کا مودی اسی لاکھ کشمیریوںپر نو لاکھ فوج چڑھا دے اور وادی میں کرفیو نافذ کردے جسے تا دم تحریر تہتر روز گزر نے والے ہیں مگر کوئی بھی مودی کو دہشت گرد نہیں کہتا ۔ اس لئے نہیں کہتا کہ مودی کشمیر کو داخلی مسئلہ کہتا ہے ۔ اسی طرح ترک صدر اردوان بھی خم ٹھونک کے دنیا کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں کہ کوئی دوسرا ملک ان کے داخلی مسئلے میں ٹانگ نہ اڑائے۔ایران اور سعودیہ کو لڑانے کی کوشش کی گئی تو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ایک امن انشی ایٹو شروع کیا۔ اسی مشن کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرنے کے لئے ترکی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ وہ خطے میں قیام امن کے لئے پاکستان کی حمایت کرنے کے قابل نہ رہے مگر ترک صدر طیب اردوان گرم و سرد چشیدہ ہیں۔ اور وہ بحران سے نبٹنا جانتے ہیں ۔ انہوںنے فوج کی بغاوت پر دلیرانہ انداز میں قابو پایا تھا اور عوام نے ترک صدر کی محبت میں فوج کے ٹینکوں کے سامنے بند باندھ دیا تھا۔
دنیا پر واضح رہنا چاہئے کہ پاکستان، ایران اور سعودی عرب کے عوام بھی اپنی حکومتوں کے ساتھ جم کر کھڑے ہیں اور اغیار کی سازشوں کا مقابلہ کرنا جانتے ہیں۔ عمران خان ایک منجھے ہوئے لیڈر ہیں۔ انہوںنے اپنی لیڈری کے جوہر کرکٹ ٹیم میں دکھائے اور ورلڈ کپ جیتا اور پھر کینسر ہسپتال بنا کراور چلا کر دکھایا ۔ یہ بظاہر ناممکن کام تھا مگر اسی عظیم منصوبے کو برطانیہ کا شاہی جوڑ آ نکھوں سے دیکھ کر جارہا ہے۔ یہاں لیڈی ڈیانا بھی آتی رہیں۔ عمران خان نے اپنے ہر پراجیکٹ پر جنونیوں کی طرح محنت کی اور کامیابی حاصل کی ، اب پاکستان کی زمام کار ان کے ہاتھ میں ہے مگر وہ خطے کے مسائل کو حل کر کے پاکستان کے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ارد گرد امن ہو گا تو پاکستان کوبھی اس کا پھل ملے گا۔ یہاں سرمایہ کارا ٓئیں گے۔ اور وہی خواب جو اسلامی کانفرنس کی تشکیل کی صورت دیکھا گیا۔ وہ شرمندہ تعبیر ہو کر رہے گا۔ اس کے لئے افغانستان میں امن چاہئے۔ ایران اور سعودی عرب میں امن چاہیے اور ترکی اور شام میں امن چاہئے اور بالآ خر پاکستان اور بھارت میں امن چاہیے، یہی راستہ خطے کی خوش حالی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خا ن نے خطے کو امن کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے ایک انشی ایٹو لیا ہے ۔ انہوںنے ابھی ایک مرحلہ طے کیا ہے۔ا س طرح کے کئی مراحل کے بعد ان کے دل کی مراد ضرور بر آئے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024