ضمنی انتخابات‘ حکمران جماعت کیلئے لمحہ فکریہ
پاکستان بھر میں ضمنی انتخابات انتہائی پرامن ماحول میں منعقد ہو چکے ہیں‘ ان میں قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے چونتیس سیٹوں پر انتخابات ہوئے قومی اسمبلی کی گیارہ نشستوں پر تحریک انصاف نے چار نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور اس کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق نے دو سیٹوں پر انتخاب جیتا۔ مسلم لیگ ن نے چار نشستوں پر میدان مار لیا اسی طرح پنجاب کی تیرہ نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی زیادہ نشستیں مسلم لیگ ن نے جیتیں صوبہ خیبر پختون خواہ کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں تحریک انصاف نے جیت لیں جہاں پہلے ہی تحریک انصاف کو واضح اکثریت تھی حالیہ ضمنی انتخابات کا خاصہ یہ ہے کہ انتخابات پرامن ماحول میں ہوئے کسی قسم کی سرکاری مداخلت نہیں ہوئی کسی سرکاری امیدوار کو کسی منصوبے کے لئے فنڈز فراہم نہیں کئے گئے اور نہ ہی ملازمتیں تقسیم ہوئیں۔ امیدوار اپنی محنت اور رابطوں سے ہی نتائج حاصل کر سکے جو اس جمہوری ماحول میں انتہائی خوش آئند معاملہ ہے عام انتخابات بھی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تھے جس کا اظہار ڈی جی آئی ایس پی آر نے برطانوی صحافیوں کے ساتھ دوران گفتگو کیا ہے اور برملا کہا کہ اگر عام انتخابات میں دھاندلی کے شواہد ہیں تو وہ لائے عام انتخابات کی طرح ضمنی انتخابات بھی سرکاری اثر و رسوخ سے دور رہے ہمارے ملک کے آزاد چینلز مختلف تبصرہ آرائی کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف اپنی نشستیں کھو کر عوامی حمایت سے محروم ہو گئی ہے تمام ٹی وی چینلز ایک طرح کی ہی بات کر رہے ہیں اور حکومتی جماعت اور ان کے وزراء یا لیڈران کو کریڈٹ دینے کو ہرگز تیار نہیں کہ ان کی مداخلت نہیں ہوئی تحریک انصاف کے صوبائی اور مرکزی عہدیداران بھی انتخابی مہم سے دور رہے کسی بھی انتخابی حلقے میں کسی منصوبے کا اعلان بھی نہیں ہوا۔ دوسری طرف ضمنی انتخابات کے بعد مہنگائی کے طوفان کو جواز بنایا گیا۔ پٹرول‘ ڈیزل‘ گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اور سرکاری زمینوں پر تجاوزات کی مہم کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
2013ء کے عام انتخابات کے بعد بھی کئی ضمنی انتخابات ہوئے گیس بجلی کے نرخ بڑھے۔ پٹرول ڈیزل سو روپے لٹر سے تجاوز کر گیا تھا لیکن پورے پانچ سال شیر بیچ چوراہے دھاڑتا رہا دوسرے لفظوں میں مسلم لیگ کی مقبولیت برقرار رہی حتیٰ کہ لودھراں کے الیکشن میں بھی تمام تر ’’ترینی‘‘ کوششوں کے مسلم لیگ ن ہی جیت گئی۔
حالیہ انتحابات میں مسلم لیگ ن نے پاکستان پیپلزپارٹی سے باضابطہ اتحاد کیا اور ایم ایم اے بھی مسلم لیگ ن کی پشت پناہی پر تھی۔ خواجہ سعد رفیق نے اپنا انتخاب جیتنے کے بعد تمام جماعتوں کا شکریہ بھی ادا کیا اور مسلم لیگی جیت کو فتح مبین قرار دے رہے خواجہ سعد رفیق کے مقابلے میں عام انتخابات میں تحریک انصاف کے قائد خود میدان میں تھے۔ اگرچہ وہ بھی کم مارجن سے جیتے تاہم لاہور کی ابھی یہ نشستیں جو تحریک انصاف کی پہنچ سے دور رہیں گی لیکن اب وہ بات بھی نہیں جب لاہور کی سجنی گلیوں میں مرزا یار ہی پھرتا تھا اب مسلم لیگ ن کے مقابلے میں ایک جماعت جو تحریک انصاف کہلاتی ہے اس کے قد کے برابر آ چکی ہے۔ اسی طرح دوسری سیٹوں پر بھی مہنگائی یا تجاوزاتی مہم کے وہ اثرات نہیں پڑے جتنے تحریک انصاف کو ٹکٹوں کی تقسیم اور باہمی اختلافات اثر انداز ہوئے قومی اسمبلی کا اٹک کا حلقہ دیکھ لیں جہاں مقامی رکن اسمبلی کی مرضی کے خلاف ٹکٹ دیا گیا تو اس نے احتجاج کے طورپر مسلم لیگ ن کی حمایت کر دی اور اس کے لئے کام کرتے رہے وگرنہ اٹک کے مقبول خاندان کو کون نہیں جانتا۔ اسی طرح تحریک انصاف کے کارکن ٹکٹوں کی غلط تقسیم کی وجہ سے باہم دست و گریباں رہے۔ بنوں کے قومی اسمبلی کے حلقہ میں ایم ایم اے کے امیدوار کی جیت تحریک انصاف کے اندرونی اختلاف اور خلفشار کی ہی واحد وجہ بنے تحریک انصاف میں جماعتی ڈسپلن کا فقدان نظر آتا ہے یہ مقبول جماعت ہونے کے باوجود ابھی تک ایک ہجوم ہے اسے بطور جماعت چلانے کیلئے عمران خان کو چند مشکل فیصلے کرنے ہونگے۔
ڈیرہ غازیخان کے حلقہ پی پی 292 کا اگر جائزہ لیں تو یہاں پر بھی تحریک انصاف شدید اختلافات کا شکار رہی جہاں ٹکٹ کی تقسیم کا معاملہ اہم ہے وہاں تحریک انصاف کے امیدوار جو آزاد حیثیت میں موجود رہے وہ اس حلقہ میں امیدوار کی ناکامی کی وجہ بھی ے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار عاطف خان دریشک جو قیادت کے کہنے پر انتخابات سے ریٹائر تو ہو گئے لیکن وہ اپنی پارٹی کے ساتھ فعال نہ رہے دوسری طرف سردار اویس خان لغاری نے اپنی قابلیت کے تمام جوہر اس نشست کی کامیابی کے لئے جھونک دئیے اگرچہ باہم مقابل امیدوار کبھی بھی نظریاتی نہیں رہے چچا اور بھتیجا صرف سیاست میں ذاتی طورپر in ہونے کا مزاج رکھتے ہیں اہل حلقہ کے پاس اور کوئی آپشن بھی موجود نہیں اسی ضلع کے وزیراعلیٰ بھی ہوں‘ وفاقی وزیر مملکت زرتاج گل اور صوبائی مشیر صحت محمد حنیف پتافی بھی ہوں لیکن وہ اس انتخابی حلقہ سے دور رہے سردار اویس لغاری نے انتخابات سے قبل ایک حساس ادارہ کی طرف سے مداخلت کا الزام بھی عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ شخص حساس ادارے کو بدنام کر رہا ہے۔ تمام جماعتوں کے اتحاد اور حمایت بھی اس حلقہ میں سردار اویس لغاری کو حاصل رہی انہوں نے نتائج آنے سے پہلے ہی دھاندلی کے حوالے سے انتباہ کر دیا اگر ان کو کچھ ہوا تو وہ بھرپور احتجاج کریں گے لغاری خاندان کا یہ گروپ جسے سردار جعفر خان لغاری نجی محافل میں لغاری خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں جو اب اپوزیشن کی سیاست میں داخل ہو چکے ہیں کہتے ہیں کہ اب ان کا مرنا جینا آل شریف کے ساتھ ہو گا کیا اپوزیشن کے ایم پی اے کے طورپر عوامی خدمت ہو سکے گی؟ کیا وہ اپنے ووٹروں کے اعتماد پر پورا اتریں گے؟ حالیہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف اپنی کارکردگی کا جائزہ لے اور اپنا محاسبہ کرے جماعت کو منظم کر لے تو تحریک انصاف کا ایک پارٹی بنے گی وگرنہ یہ بے ہنگم ہجوم ہی رہے گی تنظیمی امور پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہے اور اندرونی خلفشار ہی شرمندگی کا باعث بنی ہے۔