کیرئیر کونسلنگ کی ضرورت و اہمیت
میٹرک کے نتائج کی آمد آمد ہے ‘ طلباء و طالبات خوش و خرم ہیں کہ اپنی اپنی محنت کا پھل مل گیا ہے لیکن سامنے ایک کوہ گراں بھی استادہ ہے یعنی اب شاگردان عزیز نے ایک کوہ گراں بھی استاد ہے یعنی اب شاگرد ان عزیز نے ایک خاص شعبہ کا انتخاب کرنا ہے۔ اب ہمارے معاشرے کے روئیے کا ذرائجائزہ لیجئے گا کہ جیسے ہی بچے کا نتیجہ آتا ہے گھر میں ایک خاص خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے‘ بچے کی مارکس شیٹ کے مطالعے کی بجائے مجموعی ہند سے یہ غور کیا جا رہا ہے ‘ رشتہ دار اور والدین کے دوست احباب بچے کا مستقبل اجاڑنے کے درپے ہو جاتے ہیں اور لگتے ہیں اپنی علمیت کا رعب جھاڑنے‘ کوئی کہتا ہے فلاں کے بچے کے اتنے نمبر تھے اب وہ ڈاکٹر بن گیا ہے‘ کوئی کہتا ہے فلاں کا بچہ انجینئر ہے یہ شعبہ بہتر رہے گا اور ویسے بھی آپ کے بچے کے مارکس بھی اچھے آئے ہیں لٰہذا اس کو انجینئر ہی بنوا دیں لیکن فی زمانہ ضروریات اور اخراجات ہی نہ کسی کی ذمہ داری ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی بات پہ کوئی توجہ دی جاتی ہے کہ جس شعبہ کا ہم بچے کے لئے انتخاب کر رہے ہیں اس پہ کل لاگت کتنی آئے گی اور کہاں سے آئے گی۔
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ میٹرک کے خاص طورپر دو قسم کے طلباء ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں ایک وہ جن کا کوئی خاص ذریعہ آمدنی نہیں ہوتا اور ایک وہ جن کو ذریعہ آمدنی کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور وہ زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے کالج کا سہارا لیتے یہں۔ اول الذکر کے سامنے اب سب سے اہم مسئلہ اپنے شعبے کا انتخاب ہوتا ہے جس میں سب سے عنصر طالب علم کا رحجان اور اس کی مرضی ہے جس پر والدین توجہ ہی نہیں دیتے اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہمسائے یا کسی رشتہ دار کا بچہ کسی شعبہ زندگی میں کامیاب ہو گیا ہے تو ہمارا بچہ بھی وہی شعبہ اختیار کرے۔ ہمارے معاشرے کے اس ناسور کو ہم دوسرے لفظوں میں بھیڑ چال بھی کہہ سکتے ہیں جس کا نتیجہ آخر کار اس شعبہ میں افراد کے افراط کی صورت میں نکلتا ہے اور وہ شعبہ پٹ کر رہ جاتا ہے جس کی واضح مثال ایم بی اے اور کمپیوٹر سائنس کے شعبہ جات ہیں کیونکہ سابقہ دو دہائی پہلے یہ شعبہ جات نئے نئے تھے لٰہذا ہر طالب علم کی بھی خواہش تھی اور والدین نے بھی اپنے بچے کو برسر روزگار کرنے کے لئے ان دونوں شعبوں میں بھیجنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکال کہ نوجوان ایم سی ایس کی ڈگری ہاتھوں میں لئے بے روزگاری جیسی عفریت کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں یہاں تک کہ کوئی بھی پرائیویٹ سکول ان کو استاد بھی رکھنے کو تیار نہیں ہے اسی بھیڑ چال کے عواقب و ثمرات ہمیشہ بے روزگاری کی صورت میں سامتے آتے ہیں۔
ہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں سب سے اہم خامی یہ ہے کہ دس سال کی تعلیم کے بعد بچے کو تخصیص کی جانب بھیجا جاتا ہے اگر یہی کام پانچ سال کی تعلیم کے بعد کر لیا جائے تو بچے ایک ماہر دستکار‘ ڈاکٹر‘ انجینئر ‘ کمپیوٹر ایکسپرٹ بن کر نکلیں لیکن جہاں ہمارے تمام شعبہ جات نااہل اور نابلد لوگوں کے ہاتھوں میں اسی طرح تعلیم کا شعبہ بھی ایسے لوگوں کے پاس ہے جو ہمیشہ اپنے تجربات سے ہماری قوم کو تختہ مشق بنائے رکھتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت پنجم کے بعد ہی بچے کی میلان طبع اور رحجان کو دیکھ کر ہی اس بات کا فیصلہ کرلیا جائے کہ وہ کیا بننا چاہتا ہے۔ قدرت نے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خاصیت ودیعت کر رکھی ہوتی ہے ضروت اس امر کی ہوتی ہے کہ ہیرے کو تراشتے والا ماہر جوہری ہو تو ہی ہریا اپنی خاص آپ و تاب نہیں کھوئے گا مثال کے طورپر کچھ بچوں کی دلچسپی آرٹ یا ادب میں ہوتی ہیں لیکن اس کے امتحانی نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو سائنس میں بھیج دیا جاتا ہے اور جس نے شاعرچ ادیب‘ نثر نگار یا گلوکار بننا تھا اس کے اندر موجود ایک باغی شخص اس کو بغاوت پہ اکسائے گا اور نتیجیتاً وہ زندگی میں کوئی خاص مقام حاصل نہیں کر سکتا جماعت دہم تک بھی بچے کی نہ تو معلم اور نہ ہی والدین رہنمائی کرتے ہیں کہ تم نے مستقبل میں کیا بننا ہے اور ن ہی کوئی ایسا سلیبس تیار کیا گیا ہے جو اس طالب علم کی رہنمائی کر سکے۔
ہمارا ملک چونکہ ایک ترقی پذیر ملک ہے اس لئے ہاں عوام کے ذرائع آمدنی ہمیشہ ان کے اخراجات سے کم ہی ہوتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے اخراجات بھی والدین پہ ایک بھاری بوجھ سے کم نہیں لٰہذا جیسے ہی بچہ تخصیص کے شعبے میں داخل ہو سب سے پہلے تو اپنے ذرائع آمدنی کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا تعین کرل یاج ائے کہ ہم بچے کو جس شعبہ میں بھیج رہے ہیں وہ کتنے سال کا ہے اور کتنے سال بعد ہمارا بچہ کچھ کمانے کے قابل ہو جائے گا اور اس کو روزگار بھی جلد از جلد مل جائے گا میرے اکثر احباب میرے پاس مشاورت کے لئے آتے ہیں تو میں ہمیشہ ان سے پہلا سوال یہی کرتا ہوں کہ آپ اپنے بچے پر مزید کتنا خرچ کر سکتے ہیں اور کیا بنانا چاہتے ہیں؟ اب ذرا مختلف شعبہ جات کی تفصیلات اور ان کے آمدہ نتائج و عواقب پہ بھی نظر ڈالتے ہیں چلیں سب سے پہلے تو بچے کی مارکس شیٹ کا معائنہ کریں تاکہ ہمیں پتا چل سکے گا کہ کون سے مضمون میں بہتر گریڈ رکھتا ہے اور کون سے فیلڈ میں جانا پسند کرتا ہے جہاں اس کی تمام صلاحیتوں کو جلا بخشی جا سکے اس کے بعد اپنے بجٹ کو سامنے رکھ کر اس بات کا فیصلہ کیا جائے کہ متعلقہ شعبے کے اخراجات بھی کم سے کم ہوں لیکن اس کا افادہ بہت زیادہ ہو اور ایسا نہ ہو کہ جس ڈگری کے حصول کے لئے ہم اپنے بچے کو منتخب کر رہے ہیں اس کے بعد وہ روزگار کے لئے دھکے کھاتا پھرے ار وہ شعبہ ایسا ہو جس میں پہلے ہی سرپلس افراد ہوں۔
میرے تجربے کے مطابق اس وقت کمپیوٹر‘ ایم بی اے اور الیکٹریکل و الیکٹرانکس کے شعبہ جات ایسے ہیں جن میں ماہرین کی تعداد سرپلس ہے جس کی وجہ سے اکثر نوجوان بے روزگاری کے دھکے کھانے پر مجبور ہیں اگر کامرس کے شعبے کو دیکھا جائے تو یہ واحد شعبہ ہے جس میں اگر ان تمام اوسط ذہن کے طلباء کو کھپایا جا سکتا ہے کیونکہ ہر شعبہ زندگی میں اکاؤنٹ‘ شارٹ ہینڈ کے ساتھ کمپیوٹر کا عمل دخل ہے۔ جس کی وجہ سے کامرس کے شعبہ کا تعلیم یافتہ بچہ سکول‘ فیکٹری یا دفتر میں نوکری حاصل کر سکتا ہے۔ ذہین طلباء اکثر اپنے لئے میڈیکل یا نان میڈیکل کا انتخاب کرتے ہیں لیکن ان میں بہت سے طلباء چونکہ اپنی عمر کے اس دور سے گزر رہے ہوتے ہیں جس کو جذباتیت کا دور کہتے ہیں تو اکثر طلباء اپنے دوستوں کی دیکھا دیھی یا اپنے دوستوں کی محبت میں اپنے دوست کا شعبہ یا کالج منتخب کر لیتے یہں جس کے نقصان کا اندزہ ان کو زندگی کے دو یا تین بہتین سال ضائع کرنے کے بعد ہوتا ہے بچے کی کیرئیر سلیکشن میں سب سے اہم کردار اس کے تعلیمی پس منظر اور ماحول کا ہوتا ہے جس کو مدنظر رکھنا ہر تعلیمی مشیر کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے میرے مشاہدے کے مطابق وہ طالب علم جو دیہی تعلیمی پس ممنظر رکھتے ہیں اگر وہ فطین بھی ہوں تب بھی ان کو ایف ایس سی (میڈیکل یا نان میڈیکل) کے دوران ایڈجسٹ ہونے میں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر بچے گورنمنٹ سکول سے آئے ہوں اور انگلش زبان پر بھی کوئی خاص شدھ بدھ نہ رکھتے ہوں تو وہ اکثر سائنس کی تعلیم سے بیزار ہو کر ناکام ہو جاتے ہیں اس لئے اگر آپ اپنے بچے کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں تو اس کو اسی طرح کا تعلیمی ماحول دیں کہ وہ بڑے شہروں میں جا کر احساس کمتری کا شکار نہ ہو جائیں۔
تیسرا اہم مسئلہ بچے کی رہائش اور آمدورفت کا بھی ہوتا ہے کچ غریب والدین اپنے بچوں کو نزدیک شہر میں تعلیم حال کرنے کے لئے بھیج تو دیتے ہیں لیکن ان کی آمدورفت کے اخراجات ادا نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ اپنے بچے کو شہر ہی میں رہائش دلا سکیں جس کی وجہ سے بچہ اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے لٰہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بجائے بھیڑ چال اور جذباتیت اختیار کرنے کے اپنے وسائل بچے کے میلان اور فی زمانہ اس شعبے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اپنے بچے کے لئے ایک بہترین شعبہ اختیار کریں۔