حال ہی میں پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ برطانیہ کا دورہ کرکے اٹلی پہنچے ہیں جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان عسکری اور دفاعی شعبوں میں پہلے سے موجود تعاون کو وسیع کرنا تھا۔ ان کے ہمراہ مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل، میجر جنرل آصف غفور بھی ہیں۔ یہ دورہ ویسے تو ایک روٹین کا دورہ ہے، جس میں ایک فوج کا سربراہ دوسرے ملک کی فوج کے سربراہ سے ملتے، ٹیکنالوجی اور حکمت عملی کا تبادلہ کرتے اور ایک دوسرے کے تجربات سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس موقع پر کئی جگہوںپر خطابات کا بھی موقع ملتا جس سے پاکستان کے مجموعی تاثر کو دنیا بھر میں اُجاگر کرنے کا موقع ملتا۔ برطانیہ کے دورہ پر آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے برطانوی چیف آف ڈیفنس اسٹاف ، برطانوی سیکریٹری دفاع سے ملاقات کی،آرمی چیف کو گارڈ آف آنرپیش کیا گیا، ملاقاتوں میں برطانوی وزیراعظم کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان و پاکستان اور قومی سلامتی کے مشیربھی موجود تھے ،،ملاقاتوں میں دوطرفہ دفاعی تعاون ،سیکیورٹی صورتحال اورافغانستان سے متعلق امورپرتبادلہ خیال کیاگیا، اس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان وفود کی سطح پربھی بات چیت ہوئی ، برطانوی قیادت نے دہشتگردی کے خلاف جنگ ، امن وامان کی بحالی اور خطے میں امن واستحکام کیلئے پاکستان کی کاوشوں کو سراہا ،آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے کہاکہ پاکستان تیزی سے دیرپا امن کے قیام کی جانب گامزن ہے،پاکستان دونوں ممالک کے درمیان باہمی سیکیورٹی اوردفاعی تعاون کوبلند ترین سطح پرلے جانے کا خواہاں ہے۔
اس دورہ کی خاص بات جسے عالمی میڈیا نے بھرپور کوریج دی وہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفورکا ملک میںدہشت گردی، سیکیورٹی اور دیگر ایشوز پر پاکستان کے کردار اور موقف کو بڑے مدلل اور جامع اندازمیں دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مدد کے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا، اس راہ میں سب سے بڑی قربانی پاک فوج نے دی۔ القاعدہ کو شکست بھی پاکستان کے تعاون سے ہی ممکن ہوئی۔ اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصانات جانی و مالی طور پر پاکستانی قوم نے ہی برداشت کئے۔ ہزاروں فوجیوں اور شہریوں کی شہادتیں ہوئیں لیکن اس کے پایہ استقلال میں کوئی جنبش نہ آئی اور اب تک پاکستانی عوام قربانیاں دے رہے ہیں یہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی امن فورسز میں بھی پاکستانی فوج کے دستے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔امن مشن میں فرائض کی انجام دہی کے دوران 250جوان شہید ہوچکے ہیں۔ خطے کے امن کیلئے افغانستان میں امن ہونا ضروری ہے اس لئے قیام امن تک افغان علاقوں میں امریکہ کو موجود رہنا چاہئے۔اگر بات کی جائے کشمیر کی تو ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ پاک فوج کے ترجمان یا سربراہ کا غیر ملکی دورہ ہو اور وہ کشمیر یا کشمیریوں کو بھول جائے۔ اُن کے مطابق خطے کے امن میں مسلسل رکاوٹ کی صورت اختیار کئے ہوئے مسئلہ کشمیر کوسب سے بڑا عالمی تنازع قرار دے کرعالمی سطح پر ایک بار پھر اس تنازع کے حل کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ پاکستان کشمیری عوام کی اخلاقی مدد جاری رکھے گا اور ان کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ حالیہ منظر نامے میں جب پاکستان مخالف پروپیگنڈہ زوروں پر ہے اور عالمی طاقت امریکہ کی طرف سے بھی ہمیں دبائو کا سامنا ہے پاکستان کی جانب سے کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا جانا یقیناً عالمی برادری میں ہمارے مثبت امیج کو اجاگر کرنے میں مدد دے گا۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہم اپنی سفارت کاری کو فعال کرکے عالمی امن کیلئے وطن عزیز کی قربانیوں اور مختلف امور پر اسلام آباد کے موقف سے دنیا کو آگاہ کرتے رہیں۔ایسا نہ کہ گزشتہ حکومت کی طرح اس میں تعطل آجائے اور ہم ایک بار پھر پیچھے دھکیل دیے جائیں۔
کیوں کہ بین الاقوامی برادری میں یہ تاثر عام ہے کہ بھارتی قیادت علاقائی بالادستی حاصل کرنے کے زعم میں یوں مبتلا ہو چکی ہے کہ اس پر کسی نفسیاتی غلبہ اور سیاسی و سفارتی عارضہ کا گمان ہوتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی نے اپنے دور حکومت میں نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا اور مالدیپ کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا اس کو نرم سے نرم الفاظ میں غیر دوستانہ اور جارحانہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ موصوف نے دنیا بھر میں لابنگ کر کے پاکستان کے خلاف خوب زہر اُگلا ہے۔ موصوف نے پاکستان اور چین کے ساتھ بھی کشیدگی کے ماحول کو فروغ دینے کے لئے اشتعال انگیز اقدامات کئے لیکن ان دونوں حکومتوں نے اس باب میں صبر و تحمل کی پالیسی پر عملدرآمد کیا اور یوں بھارتی قیادت کے توسیع پسندانہ عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ ایسے میں نئی دہلی کے ارباب بست و کشاد نے یہ ہرزہ سرائی بھی کی کہ بھارتی فوج نے سرجیکل اسٹرائیک کرکے پاکستان کو سبق سکھایا ہے۔ ظاہر ہے کہ وطن عزیز کی سیاسی اور عسکری قیادت نے اس کذب گوئی کا سختی سے نوٹس لیا جس کے بعد بھارت کی طرف سے خاموشی اختیار کی گئی۔ اس حوالے سے پاک فوج نے عالمی میڈیا کے سامنے موقف رکھا اور کہا کہ بھارت نے ایک سرجیکل اسٹرائیک کی تو ہم 10 کریں گے۔ اورویسے بھی وہ صرف دیومالائی کہانی ہے، بھارت جھوٹ بول رہا ہے، کوئی بھی مہم جوئی کی گئی تو ہم 10 گنا زیادہ طاقت سے جواب کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ہماری طاقت پر کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔اس بیان کے بعد انڈین میڈیا آگ بگولا ضرور ہوا مگر حکومت نے چپ سادھے رکھی۔
یہ بات حقیقت ہے کہ جب آپ پاک فوج کے سربراہ ، یا بطور ترجمان بیرون ملک ہوتے ہیں تو آپ پاکستان کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف بیرون ملک جب بھی کسی سے بات کرتے ہیں پاکستان کی بات کرتے ہیں فوج کی نہیں، پاک فوج سی پیک کی محافظ ہے، کراچی میں جرائم میں کمی آئی ہے، انٹرنیشنل میڈیا میں پاکستان سے متعلق مثبت خبروں کو اجاگر نہیں کیا جاتا۔ مغربی میڈیا میں ہمیشہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی الزامات لگائے جاتے رہے، سرحد پر باڑ 2 ملکوں کے درمیان تقسیم نہیں۔ ہم اپنی سرحد کھلی نہیں چھوڑ سکتے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاشرے کے ہر طبقے نے حصہ لیا اور پاکستان میں امن و استحکام کے لئے 76 ہزار جانیں دی گئیں، بیوروکریسی اور دیگر اداروں نے کراچی کے امن کے لئے مل کر کام کیا تاہم مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کا پاکستان ماضی سے بہتر ہے، ہم اچھے حالات کی جانب گامزن ہیں، بطور ادارہ پاکستان کا تشخص بلند کرنا ہمارا اولین فرض ہے۔ درحقیقت ہماری فوج اور پولیس دہشت گردوں کے خلاف کئی برسوں سے لڑ رہے ہیں۔ اور اب حالات یہ ہیں کہ دشمن کا بچا کچھاحصہ بھی ختم ہونے کو ہے یا آخری دموں میں ہے اور یہ سب پاک آرمی ہی کی بدولت ہوا ہے۔ بقول شاعر
میرا دشمن مجھے للکار کے جائے گا کہاں
خاک کا طیش ہوں، افلاک کی دہشت ہوں میں
ورنہ اگر ہم ملک کے چند سال پہلے حالات دیکھیں تو جگہ جگہ مسجدوں میں بم دھماکے، سکولوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا قصور ان کو بھی یہ دہشت گرد نشانہ بنا رہے تھے،اور ملک کے کونے کونے میں خون میں لت پت لاشیں دکھائی دیتی تھیں لیکن ان وردی والوں کی بدولت آج ملک امن کی ہوا قائم ہے۔ اگر ملک پر کوئی بھی قدرتی آفت آئے سب سے پہلے یہی وردی والے اپنی عوام کی مدد کرنے کو پہنچ جاتے ہیں۔ عوام کے دلوں میں ان وردی والوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا اتنا آسان نہیں عوام با شعور ہے۔ خدارا اس ملک کے ساتھ اگر کوئی ادارہ مخلص ہے تو اس کو مخلص ہی رہنے دیں اس کے خلاف عوام کے اندر نفرت پیدا نہ کریں۔ پوری دنیا کسی نہ کسی حوالے سے پاک فوج کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ایسے میں پاک فوج کے سربراہ کا بیرون ملک دورہ یقینا حالات ساز گار بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ بہرکیف اگر پاک فوج اور حکومت اسی طرح بیرون ملک پاکستان کا تشخص دنیا بھر میں اُجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اس کا اثر وطن عزیز کے معاشی حالات پر بھی ہوگا۔ باہر سے سرمایہ کاری آئے گی اور لوگوں کا اعتماد بحال ہوگا۔
پاک فوج کا دوٹوک موقف!
Oct 19, 2018