آج غیر سیاسی کالم لکھنے کو دل کر رہا ہے۔
راولپنڈی سے دانشور دوست برادرم اورنگ زیب عالی بہت سادہ آدمی ہے۔ دوسروں کیلئے کچھ نہ کچھ اچھا سوچتا رہتا ہے۔ پچھلے دنوں وہ لاہور میں تھا۔ ان کا جائزہ یہ تھا کہ لاہور میں خواتین انتھک کام کر رہی ہیں۔کسی بزرگ خاتون کا ذکربھی کیا۔ اس خاتون کا نام ممتاز رئیس ہے۔ 30 برس کی خدمت کے باوجود نوازشریف نے آج تک اسے نظرانداز کیا۔ کبھی اسے ٹکٹ نہیں دیا گیا اور کبھی کوئی منصب بھی نہیں دیا گیا۔ ذمہ داریاں بھی انہوں نے خود سنبھالیں اور کام کیا۔ ان کا قصور یہ ہے کہ وہ ایک غریب خاتون ہیں۔ ایسی خواتین کو نظرانداز کرنا غیر سیاسی عمل ہے۔ اس کے علاوہ نورین رفیق‘ کرن آفتاب‘ عصمت طائر‘ فرح صالحین‘ کنیز طائر اور امتیاز الیاس اور دیگر خواتین کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے الیکشن میں بھرپور حصہ لیا۔ راولپنڈی کے حوالے سے انہوں نے بات کی ہے۔
پنجابی کا ایک رسالہ آج مجھے ملا ہے۔ ”پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج اینڈ آرٹ و کلچر“۔ اس میں شعروادب کو خود میں شامل کر رہا ہوں۔
ایک خاتون سے پوچھا گیا کہ آپ ادب سے کتنی دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس نے کہا کہ ہاں میں بڑوںکا بہت ادب کرتی ہوں۔ ’ترنجن“ کا تازہ شمارہ خوبصورت ہے۔ یہ غزل نمبر ہے۔ کم و بیش 135 غزلیں شامل ہیں۔ یہ غزلوں کا اچھا انتخاب ہے۔ سعید آسی کیلئے بھی معلوم نہ تھا مگر وہ بہت اچھے شاعر پنجابی زبان کے بھی ہیں۔ اردو کیلئے تو ان کا بہت معروف نام ہے۔ ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔
بِٹ بِٹ تکدیاں اکھاں تھکیاں
گُمیاں راہواں لبھ نہ سکیاں
ویلے دی گل اوس توں پُچھو
جس ویلے دیاں دُھوڑاں پھکیاں
آسی مول نہ چڑھیا جاوے
شہر ترے دیاں اُچیاں ڈھکیاں
اختر شمار مجھے بہت پسند ہیں۔ ان کی غزل ایک مختلف ذائقہ رکھتی ہے۔ کسی نے آج تک محبت کیلئے استغفار کا لفظ استعمال نہ کیا تھا
شرک گناہ توں بچن لئی
استغفار محبت سی
اب اس غزل کے کچھ اور اشعار بھی دیکھیں
روز منایا کردے ساں
اک تہوار محبت سی
میرے پچھے دشمن سن
اگے یار محبت سی
اڑیا وچ بھنور دے میں
دریا پار محبت سی
انمول گوہر کے بھی اشعار بہت پسند کئے گئے:
دل دے آکھے لگ کے آپے اپنا آپ گوایا اے
دکھاں دے پینڈے پے کے جند اپنی نوں رولن لگ پئے
لا کے توڑ نبھاون والی گل سمجھاوندے رہندے سی
کلیاں ہو کے رہ گئے گوہر ساڈے پیر وی ڈولن لگ پئے
آشناتھ کنول دا مطلع بہت شاندار ہے:
کنے درد ونڈائی بیٹھا
کنے زخم لگائی بیٹھا
میں تنویر ظہور کو پنجابی کا فطری شاعر سمجھتا ہوں اس نے لکھنا شروع کیا تو پنجابی ہی میں لکھا:
سوچاں اُتے خوف دے پہرے خورے کون بٹھاندا اے
ہن آکے احساس ہویا اے جندڑی کنی بھاری اے
ریاض ندیم نیازی میرے میانوالی کی نمائندگی بلوچستان میں کرتا ہے:
دل دے زخماں ورگے ہو گئے
لفظ چراغاں ورگے ہو گئے
اسد اللہ شاہ کا ایک شعر دیکھئے:
اساں خورے کنھوں ملنا سی
ایویں سجے کھبے مڑدے رہے
عمرانہ مشتاق کہتی ہے:
جان گنوانی پیندی اے منہ دی کھانی پیندی اے
عشق دے ول کیہہ آوے گا پڑھ پڑھ عشق مقالیاں نوں
تسنیم کوثر نے تو میرے دل کی بات کی ہے وہ اچھی شاعرہ ہے مگر آجکل اس کا رحجان افسانہ نویسی کی طرف ہے۔ وہ کہانی کار بھی اچھی ہے۔
کسے نوں ایہدی سمجھ نہ آوے
عورت ذات نمانی اوکھی
چرخے دی گھوکر نوں سن کے
ماں دی یاد بھلانی اوکھی
گلفام نقوی فیصل آباد کی ایک بڑی شاعرہ ہے اور اردو زبان میں اس کا شعری مجموعہ بھی آنے ولا ہے۔
پنچھی پرت کے آندے جد گھر شاماں نوں
یاد آندے نیں وچھڑے دلبر شاماں نوں
پریاں وانگوں نال مینوں لے جاندیاں نیں
سوچاں نوں لگ جاندے نیں پرشاماں نو
لبنیٰ صفدر سے میری ملاقات نہیں ہوئی مگر اکثر اس کی تحریریں اور شاعری پڑھنے کو ملتی رہتی ہے۔ کیسی منفرد شاعری ہے:
دکھاں اوہ دی کر چھڈ یا اے
جیہڑا کم اخبار نہیں کیتا
لبنیٰ جہیڑا چن سی میرا
چانن اوس اک وار نہیں کیتا
مدثر اقبال بٹ جیسے شاعر تو ہونگے اس جیسا دوست کوئی نہیں ہے۔ نجانے وہ کس مٹی سے بنا ہے۔ تقریبات کراتا اور ہر بار مجھ سے صدارت کراتا۔ میرے لئے ایک دوستانہ افتخار ہے مگر میں ایک معمولی آدمی ہوں میں مدثر کے احسانات کا بدلہ کیسے اتاروں گا:
مندر وچ نہ یار مسیتے
ہور طراں دے سجدے کیتے
لوگ قیامت کولوں ڈر دے
ساڈے سر تے روز ای بیتے
اوہ کیہہ عشق مقام پچھانن
جیہڑے لوکاں زہر نہ پیتے
اس ویلے دے لوک مدثر
بندے ہین کہ ہین ایہہ چیتے
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024