جمعۃ المبارک ‘ 9؍ صفر المظفر1440 ھ ‘ 19اکتوبر 2018ء
شہبازشریف نے پارلیمنٹ پہنچتے ہی مکا لہرایا
اسے میاں صاحب کا ایک مخصوص انداز کہہ لیں یا جارحانہ انداز۔ سوشل میڈیا پر اب ان کے چاہنے والے اور مخالف دونوں اس مکا لہرانے پر دلچسپ تبصرے کریںگے۔ فی الحال تو انہوں نے گرفتاری کے بعد قومی اسمبلی میںاپنی انٹری کے وقت جذباتی انداز میں مکا لہرا کر حزب اقتدار کو غالباً پیغام دیا ہے کہ اب آپ کی خیر نہیں۔ ان کی اس مکا لہراتی آمد پر حزب اختلاف میں موجود (ن) لیگی ارکان نے بھی مکا لہرا لہرا کر ایک مرتبہ تو قومی اسمبلی کو مکا اسمبلی میں تبدیل کر دیا۔ شکر ہے جوابی طورپر حزب اقتدار نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی ورنہ خطرہ تھا کہ اسمبلی میں ہی باکسنگ کے نمونے دیکھنے کو ملتے اور قومی اسمبلی باکسنگ رنگ میں تبدیل ہو جاتی اور سپیکر اسمبلی ریفری بن کر بیچ بچائو کراتے نظر آتے۔ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں بھی ایسا ہوتے ہوتے رہ گیا اور بات صرف ہاتھاپائی تک محدود رہی۔ وہاں بھی ایک چھوٹے سے معرکہ کی شکل دیکھنے کو ملی۔ اب دیکھنا ہے حکومت اس مکے کے جواب میں کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے کیونکہ ہماری روایات میں مکے کا جواب مکا دکھا کر ہی دیا جاتا ہے۔ خدا کرے اب ایسا صرف بیانات تک ہی ہو اور جمہوری رویوں کو فروغ ملے۔
٭٭…٭٭…٭٭
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما نے بے نظیر بھٹو کے خلاف سازش کی: رحمان ملک
خدا خیر کرکے رحمن ملک صاحب کی اس بات سے تو پیپلزپارٹی کے بہت سے رہنمائوں پر گھبراہٹ طاری ہوگئی ہوگی ۔ کیونکہ بے نظیر بھٹو کے خلاف سازش کرنے کے نجانے کتنے افسانے اور کہانیاں گردش کر رہی ہیں ۔ ان کے ہوتے ہوئے تو …؎
ہم کو بھی غم نے مارا
تم کو بھی غم نے مارا
اس غم کو مار ڈالو
کے مصداق بہت سے رہنما اپنا اپنا غم دل میں دبائے پھرتے تھے کہ بی بی کے ہوتے ہوئے ان کے چراغ نہیں جلیں گے ، اب رحمن ملک نے تاشقند معاہدے پہ بھٹو صاحب والی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے نام پھر بعد میں بتائوں کا جو سوانگ رچایا ہے وہ نہ رچاتے تو اچھا تھا۔کیونکہ اس طرح بی بی کے خلاف سازش رچانے والے کہیں اب ان کے خلاف کوئی ڈرامہ نہ رچائیں۔بعد میں شہید بی بی کی نامعلوم وصیت کی طرح کوئی دستاویز سامنے آئے جس میں کسی کا نام درج ہو جسے پارٹی والے راہ سے ہٹانا چاہتے ہوں ۔ اس لئے بہتر تھا کہ رحمن ملک نام بھی لے لیتے ۔ محترمہ بے نظیر کا قتل بھی ایک ایسا راز ہے جو شاید ہی کبھی کھل کر سامنے آ سکے ۔ کیوں کہ ان کے قتل کی منصوبہ بندی سے لے کر واردات تک میں بڑے بڑے وارداتئے ملوث تھے ۔ جو کسی صورت اس راز سے پردہ اٹھنے نہیں دیں گے ۔ اگر ایسا کرنا ہوتا تو خود پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں جب سب کچھ حکومت کے ہاتھ میں تھا بے نظیر بھٹو کے قتل کے راز سے پردہ کیوں نہ اٹھایا گیا ۔ اسے راز ہی کیوں رہنے دیا گیا جس پر آج بلاول بھی کہہ رہے ہیں کہ رانی بی بی کے قتل کو بے نقاب کرناہوگا۔ بھلا جو کام ان سے نہ ہو سکا‘ وہ اب کون کرے گا۔
شرمین عبید چنائے کا ایک اور اعزاز، نیویارک میں ’’گلوبل لیڈر شپ انعام‘‘ سے نواز ا گیا
یہ بڑی اچھی بات ہے کہ آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی فلم ساز شرمین عبید چنائے کو فلمسازی اور عورتوں کے حقوق کے لئے جدوجہد اور ان کی جرأت مندانہ قیادت اور خدمات کے اعتراف میں گلوبل لیڈر شپ انعام سے نوازا گیاہے۔ شرمین برطانوی شہری ہیں ، انہوں نے عورتوں کے حقوق پر جو پاکستانی فلمیں بنائیں اس پر انہیں کئی انعامات مل چکے ہیں ۔ اس پر ہر پاکستانی کو فخر ہے۔ اگر وہ خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم پر پاکستان کے چہرے کو اجاگر کر سکتی ہیں تو پھر اس سے کہیں زیادہ ظلم و زیادتیاں تو ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ہوتی ہیں ۔ انہیں وہاں پر ہونے والے ظلم پر فلم بھی فلم ضرور بنانی چاہیے۔ اس پر تو انہیں اتنے ایوارڈ مل سکتے ہیں کہ ان کے گھر میں رکھنے کی جگہ نہ رہے ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستانی نژاد شرمین کی اس جرأت رندانہ کی بدولت اگر ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک بند ہو۔ انہیں غیرت کے نام پر موت نہ دی جائے ۔ عشق میں ناکامی پر تیزاب پھینکنے کی وارداتوں سے نجات ملے تو یہی ان کے لئے بہت بڑا اعزاز ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں میں بھی جینے کی نئی امنگ پیدا ہوگی جس کا سہرا ان کے سر جائے گا۔
٭٭…٭٭…٭٭
دو بڑ ی پارٹیوں نے مایوس کیا‘ اب عمران بھی کر رہے ہیں: فاروق ستار
یہ شکوہ تو ایم کیو ایم والوں کو اپنی تمام حلیف جماعتوں سے ہمیشہ رہا ہے۔ خواہ ان کے تمام مطالبات ہی کیوں نہ پورے کئے جائیں۔ ان کی زبان پر ’’ھل من مزید‘‘ ہی رہتا ہے۔ مشرف نے‘ بینظیر بھٹو نے‘ آصف زرداری نے‘ نوازشریف نے ہمیشہ بطور حلیف ایم کیو ایم کی ہر جائز ناجائز بات کو تسلیم کیا۔ ان کے کسی کام میں رکاوٹ نہیں ڈالی مگر یہ شکوہ آج بھی فاروق بھائی کر رہے ہیں کہ دو بڑی پارٹیوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے مایوس کیا۔ اس پر کس کو یقین آئے گا‘ کون اسے تسلیم کرے گا۔ خود ایم کیو ایم کے جانثار اور کار پرداز اس بات پر منہ چھپا کر ہنستے ہونگے۔ کامل پندرہ سے بیس سال تک کراچی تا حیدرآباد ایم کیو ایم نے راج کیا۔ سچ کہیں تو ان دونوں شہروں کو تاراج کیا۔ لوگوں کو اپنا مفتوح سمجھ کر ان سے ساتھ غلاموں والا سلوک کیا۔ اب جب ان غلاموں کو موقع ملا ہے تو انہوں نے بدلا چکا لیا جس پر کراچی میں اب ایم کیو ایم کو تحریک انصاف سے مقابلہ درپیش ہے جس میں تحریک کا پلہ بھاری ہے تو فاروق ستار کو عمران کی طرف سے بھی مایوسی نظر آرہی ہے۔ شاید یہ مایوسی قومی اور صوبائی اسمبلی میں تحریک انصاف کی پے در پے کامیابیوں کی وجہ سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے حالانکہ اس وقت بھی ایم کیو ایم کے پاس دو وزارتیں ہیں۔ اتنے ہی مشیر بھی ہونگے۔ حکومت کی حلیف بھی ہے۔ حکومت میں شامل بھی ہے۔ پھر کون سی مایوسی فاروق ستار کو غم کی طرح اندر ہی اندر کھائے جا رہی ہے۔
٭٭…٭٭…٭٭