کہتے ہیں انسان جتنے بھی بلند عہدے تک پہنچتا ہے اتنی ہی زیادہ اس کی پریشانیاں بھی بڑھتی ہیں۔یہی حالت آج کل ہمارے وزیراعظم صاحب کی ہے۔اچھی بھلی آزادانہ زندگی گزار رہے تھے ۔کرکٹ آئیکون ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں عزت تھی۔پاکستان کے لئے انہوں نے بڑا نام کمایا۔عوامی فلاح و بہبود کے کام بھی کئے جس سے پاکستانی عوام کی آنکھوں کے تارے بن گئے۔معلوم نہیں انہیں کیا شوق چرایا کہ سیاست کی خار دار وادی میں چھلانگ لگا دی۔22سال مسلسل کوشش کے بعد پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدے پر متمکن ہو ئے۔انکی مسلسل جدو جہد اور عزمِ صمیم واقعی قابل تحسین ہیں۔خاتونِ اول کے انٹرویو کے مطابق پاکستان خوش قسمت ہے کہ اسے عمران خان جیسا راہنمانصیب ہوا ہے۔عمران خان کی سابقہ بیوی نے بھی تعریف کی ہے کہ اسے انگلینڈ میں قیام کرنے کے لئے ایک بھاری رقم کی پیش کش کی گئی تھی مگر اس نے یہ کہہ کر رقم ٹھکرا دی کہ :’’ میں اپنے ملک میں رہنا چاہتا ہوں اور اپنی قوم کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں‘‘۔اتنی بڑی رقم کو حب الوطنی اور قوم کی خدمت کی غرض سے ٹھکرانا خان صاحب کی عظمت کا ثبوت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خانصاحب قوم کی خدمت کرنے اورپاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے میں مخلص ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے مقصد اور اپنی کوششوں میں کامیاب کرے آمین!
مندرجہ بالا ساری خصوصیات اور خان صاحب کے پر خلوص جذبات اپنی جگہ لیکن خان صاحب کا المیہ یہ ہے کہ وہ اقتدار میں پہنچتے ہی مختلف مسائل میں گھر گئے ہیں جو انکی کوششوں کو غیر مئوثر بنا سکتے ہیں۔اقتدار تک پہنچنے کے لئے خان صاحب نے عوام سے بڑے بڑے وعدے کئے تھے مگر اب موجودہ حقائق کے مدِ نظر وعدوں کی تکمیل مشکل نظر آتی ہے۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ وعدے بغیر حقائق کو سمجھے ہوئے کئے گئے تھے۔ خان صاحب کا پہلا وعدہ تھا کہ وہ قرض نہیں لیں گے۔ قرض کا کشکول توڑ دیں گے۔وہ خود کشی کر لیں گے لیکن آئی ایم ایف کے پاس ہر گز نہیں جائیں گے۔ پچھلی حکومتیں بھی الیکشن کے دوران قرض کا کشکول توڑ نے کی باتیں کرتی رہی ہیں۔ہر خوددار راہنما یہی چاہتا ہے۔قرض کا کشکول آخر کسی نہ کسی مرحلہ پر تو ٹوٹنا ہی چاہیے۔ہر پاکستانی بھی یہی چاہتا ہے۔ اس لئے خان صاحب کا یہ وعدہ تو درست تھا لیکن شاید انہیں اصل حقائق کا علم نہ تھا۔انہوں نے صرف وعدہ ہی نہیں بلکہ ’’خود کشی‘‘ تک کا دعویٰ کر ڈالا۔ اقتدار میںآنے کے بعد جب اصل حقائق سامنے آئے تو حکومت کے ہوش اڑ گئے۔دائیں بائیں سے ڈالرز کا بندوبست کرنے کی حتی الوسع کوشش کی۔ اس مقصد کے لئے سعودی عرب بھی گئے اور گلف ریاستوں میں بھی۔ چین سے بھی بات ہوئی مگر ضرورت کہیں سے بھی پوری نہ ہو سکی۔ حکومت کی کوششیں جاری تھیں کہ سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی۔ ڈالر ایک ہی دن میں 9.50 روپے تک مہنگا ہو کر138/-روپے تک پہنچ گیا۔ حالات ہاتھ سے نکلتے ہوئے دکھائی دئیے تو فوری طور پر آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کیا گیا۔اب اپوزیشن کے ہاتھ میں پوائنٹ آگیا ہے اور وہ اس نکتے کو خوب اچھال رہے ہیں۔
خان صاحب نے وعدہ کیا تھاکہ کابینہ چھوٹی رکھیں گے ۔دس وزراء سے زیادہ نہیں ہو گی۔یہ واقعی خوشی کی بات تھی کیونکہ ایک ایک وزیر بمعہ تمام مراعات کے عوام کو ہر ماہ کئی لاکھ میں پڑتا ہے۔تنخواہیں اور مراعات عوام کا خون نچوڑ کر پوری کی جاتی ہیں۔ اس سے پہلے بعض حکومتوں میں وزراء اور مشیروں کی تعداد 70 ,80تک چلی جاتی تھی جو پورا پروٹوکول اور مراعات سے مستفید ہوتے تھے ۔ظاہر ہے یہ سارا بوجھ عوام پر آتا تھا۔خان صاحب کا وعدہ بجا مگر انکا المیہ یہ بنا کہ حکومت بنانے کے لئے انہیں مناسب مینڈیٹ ہی نہ ملا۔ مجبوراً چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ ملانا پڑا اور انہیں وزراتیں دے کر خوش کرنا پڑا ۔یوں مرکز میں یہ تعداد 33وزراء تک بڑھ گئی جو تا حال بڑھ رہی ہے۔تعداد کے رکنے کے امکانات نظر نہیں آتے کیونکہ چھوٹی پارٹیاں اور کچھ اپنے ممبران حکومت کو مسلسل دبائو میں رکھے ہوئے ہیں۔یوں خان صاحب کا یہ وعدہ بھی الٹ ہو گیا ہے۔
یہی حال صوبوں میں ہے۔ایسے معلوم ہوتا کہ خان صاحب کو پچھلی حکومتوں سے کہیں زیادہ تعداد میں وزیر اور مشیر رکھنے پڑیں گے اور یوں سادگی اور قومی خزانے کی بچت کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جائیگا ۔سادگی اور قومی خزانے کی بچت کے حوالے سے خان صاحب نے اسمبلی ممبران کے صوابدیدی اور ترقیاتی فنڈز ختم کر دئیے تھے جو دراصل ممبران کو ساتھ رکھنے کے لئے ایک قسم کی رشوت تھی۔ اس میں زیادہ تر پیسہ ممبران کی جیبوں میں چلا جاتا تھا۔یہ پیسہ اول تو ترقیاتی کاموں پر استعمال ہی نہیں ہوتا تھا اور اگر کہیں خوش قسمتی سے ہوتا بھی تھا تو کاگھٹیا اور برائے نام کام ہوتا تھا ۔خان صاحب کے اس فیصلے کو بھی عوام کے ہر طبقے میں پذیرائی ملی۔یہ فیصلہ بھی شاید حقائق کے برعکس تھا۔ممبران کو خوش کرنے کے لئے چند ہی دنوں بعد ایک ارب روپے کے سفری وائوچر زدینے پڑے اور اب پنجاب حکومت اپنے ان ممبران کو 30 ارب روپے ترقیاتی پیکج کے نام پر دے رہی ہے اور یہ پیسہ عوام پر مزید ٹیکس لگا کرپورا کیا جائیگا۔
خان صاحب کے دو اہم وعدے کرپشن ختم کرنا اور لوٹا ہوا پیسہ واپس لانا ہے۔ یہ وہ وعدے ہیں جو پچھلی تمام حکومتیں کرتی رہی ہیں مگر بد قسمتی سے نہ تو کرپشن ختم ہوئی اور نہ لوٹا ہوا پیسہ واپس آسکا۔ کرپشن ہر حکومت میں بڑھی ہے کم نہیں ہوئی۔ کرپشن کا یہ عالم ہے کہ ایک حکومتی بیان کے مطابق ہر سال دس ارب روپے کی ملک سے منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ اور تو اور کچھ حکمران بھی اس کارِ خیر میں شریک پائے گئے ہیں۔ جب حکمران ملوث ہونگے تو پھر دیگر لوگوں کا کیا کہا جا سکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دس ہزار سے زائد پاکستانیوں کی بیرونِ ملک جائیدادیں اور کاروبار ہیں۔ یہ لوٹی ہوئی دولت کئی ارب ڈالرز میں ہے جو بیرون ملک بینکوں میں جمع ہے۔ حکومت کوشش تو کررہی ہے یہ دولت واپس لانے کے لئے مگر ممکن نظر نہیں آتا۔حکومت کے پاس اتنی طاقت ہی نہیں کہ وہ کسی کو لوٹی گئی دولت واپس لانے کے لئے مجبور کر سکے۔ویسے بھی یہ لوگ جان تو دے سکتے ہیں مگر لوٹا ہوا پیسہ ہر گز واپس نہیں کریں گے۔موجودہ مضبوط اپوزیشن کے سامنے حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ملک کو اس بیدردی اور بے رحمی کے انداز میں لوٹا گیا ہے کہ ترقی تو رہی ایک طرف اب حکومت چلانے کے لئے بھی پیسہ نہیں ۔بلوچستان حکومت نے تو ہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں کہ وہ سرکاری ملازمین کو تنخواہ تک ادا کرنے سے بھی قاصر ہے۔ ہمارے روپے کی قیمت تکلیف دہ حد تک گر چکی ہے ۔تمام یوٹیلیٹیز پر ٹیکس لگ چکا ہے جس سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آگیا ہے ۔چیزوں کی قیمتیں15 سے20فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ روزمرہ کی سبزی دالیں غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔ یہ قیمتیں اب بھی مستحکم نہیں بلکہ مسلسل بڑھ رہی ہیں۔عوام کی بے بسی حکومت کے خلاف غم و غصے میں تبدیل ہو رہی ہے۔ اسی لئے خان صاحب ضمنی الیکشن میں پہلے سے جیتی ہوئی تین سیٹیں بھی ہار گئے ہیں ۔ اگر یہی حالات رہے تو اپوزیشن اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائے گی اور حکومت کے لئے ’’واٹرلو‘‘بنا دے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024