جب بھی کوئی حکومت برسراقتدار آتی ہے تو یوں سمجھیں کہ اس کے پاس ایک قلم اور سادہ ورق بھی ہوتا ہے تاکہ وہ ملک کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کرے، وہ باب سنہرا ہوگا یا پھر تاریک ، یہ حکومت کی عقل و بصیرت اور پالیسیوں پر منحصر ہوتا ہے۔ 1947ء کے بعد سے 2018 ء کے انتخابات تک پاکستان میں آنے والی حکومتوں سے میں کچھ نے ڈیم تعمیر کرکے، پاکستان کو ایٹمی قوت بناکر ،سرحدوں کو مضبوط کرکے، بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھاکر ، انفراسٹرکچر بہتر کرنے جیسے اچھے کارنامے اپنے نام سے منسوب کیے تو کچھ کا دامن دہشت گردی کو بڑھاوا دینے، ملک کو توانائی کے سنگین بحران میں دھکیلنے ، ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھانے ، کالاباغ ڈیم جیسے اہم منصوبے کی مخالفت کرکے دشمنان ملک کے مقاصد کو پورا کرنے کے کیچڑ سے آلود ہوا۔ پاکستان کے ساتھ بہت کچھ ہوچکا ہے، برا زیادہ اور اچھا کم لیکن اس پر بعد کرنا بات از مرگ واویلا کی طر ح ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ بہتر ہے کہ ہم آگے کی طرف دیکھیںاور تمام توجہ پاکستان کی ترقی پر فوکس کریں۔ پاکستان کو آگے بڑھانا حکومت اور اپوزیشن دونوں کا ہی فرض ہے لیکن کلیدی کردار ہمیشہ برسراقتدارسیاسی طبقات کا ہوتا ہے ۔ حکومت کو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اپوزیشن کو گلے سے لگانا اور یہ باور کرانا چاہیے کہ پاکستان کو بلندی کی طرف لے جانے کے لیے حکومت کو اپوزیشن کے متحرک کردار کی ضرورت ہے۔ قومی معاملات پر تو حکومت اپوزیشن کو اعتماد میں لے ہی مگر اکانومی پر بھی اپوزیشن سے مشاورت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ پاکستانی روپے کی قیمت میں بھاری کمی نے معاشی کمزوریوں کو پوری طرح نمایاں کردیا ہے۔ اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلنے سے جہاں ملک کو بڑا فائدہ ہوگا وہاں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹرسٹ بلڈنگ ہوگی جس سے سیاسی درجہ حرارت نیچے آئے گا ۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان روایتی ساس بہو والے جھگڑے تو معمول کے طور پرچلتے ہی رہیں گے لیکن اس کے ساتھ دونوں کو مل بیٹھ کر ملک کی خدمت کا کام بھی کرتے رہنا چاہیے۔
پی ٹی آئی کو پہلی مرتبہ حکومت ملی ہے اور لوگوں کی بھاری توقعات ان سے وابستہ ہیں جس کی وجہ سے انہیں محتاط فیصلے کرنے ہونگے جو فی الحال نظر نہیں آرہے ۔اس حکومت نے انتخابات سے قبل ہی جو سب سے بڑی غلطی کردی تھی وہ یہ کہ بڑے بڑے دعوے کیے گئے، آئی ایم ایف کے پاس جانے والوں کو فقیر کہا اور یہ تاثر دیا کہ پی ٹی آئی حکومت کے آتے ہی دودھ و شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی جو عملی طور پر کسی بھی صورت ممکن نہیں تھا۔ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، دعوئوں کے برعکس بجلی اور گیس کی قیمت میں اضافہ کردیا گیا، روپے کی قیمت ایک ہی دن میں ریکارڈ توڑ گری جس کی وجہ سے قرضوں کے بوجھ میں 900ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوگیا، صنعتکاراور تاجر طبقہ تو ایک طرف وہ لوگ بھی روپے کی قدر میں کمی پر پریشان دکھائی دئیے جنہیں صحیح طرح تو معلوم نہیں تھا کہ ہوا کیا ہے ، البتہ ان کی چھٹی حس بتارہی تھی کہ اس کے نتائج بھیانک ہی نکلیں گے۔ لامحالہ اب اس پر ڈیبٹ سروسنگ کی مد میں زیادہ بجٹ رکھنا ہوگا، پہلے ہی 1400ارب روپے سے زائد رقم ڈیبٹ سروسنگ پر صرف کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ منی بجٹ لانے اور اربوں روپے کے ٹیکس لگانے کے ارادے ظاہر کیے جارہے ہیں بچے سڑکوں پر اپنے بڑوں کی عزتیں نیلام کررہے ہیں۔
وزیراعظم کو ان تمام معاملات کا فوری جائزہ لینا اور دانشمندی سے فیصلے کرنا ہونگے کیونکہ انہیں پہلی مرتبہ حکومت ملی ہے اور لوگوں کی بڑی توقعات ان سے وابستہ ہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ ماضی میں درجنوں بار یہی آخری آپشن رہی ہے لیکن یہا ںحکومت کے بڑے بڑے دعوے اس کی ساکھ متاثر کررہے ہیں۔ بہرکیف معاشی صورتحال کے پیش نظر آئی ایم کے پاس جانا مجبوری ہے مگر یہ بات ملحوظ خاطر رکھی جائے کہ آئی ایم ایف جو رقم ادھار دے وہ پیداواری منصوبوں پر خرچ ہو نہ کہ اس سے قومی خزانے کے سینے پر سانپ بن کر لوٹنے والے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کا پیٹ بھردیا جائے یا منتخب نمائندوں کے شاہی اخراجات پورے کیے جائیں جیسا کہ انہیں مفت سفری سہولیات دینے کے لیے حال ہی میں ایک ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ اکانومی ان اخراجات کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اپنی اکنامک ٹیم کی مدد سے حکومت پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کے لیے بھی پلاننگ کرے۔ کسی زمانے میں یہ فائدہ مند ہوتے تھے ، انہوں نے ملک کوفائدہ دیا، لوگوں کو روزگار فراہم کیا مگر افسر شاہی نے انہیں اس موڑ پر لاکھڑا کیا ہے کہ یہ ہر سال ملک کے خزانے سے چھ تا سات سو ارب روپے ہڑپ کرجاتے ہیں۔ حکومت اکنامک ٹیم کی منصوبہ بندی سے نہ صرف ان اداروں کا نقصان ختم ہوسکتا ہے بلکہ یہ سالانہ کئی سو ارب روپے کا فائدہ بھی دے سکتے ہیں۔ معاشی بدحالی پر پریشان ہونے کی اس قدر ضرورت نہیں ہے ، 2013ء میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تھی تب بھی معاشی حالات ایسے ہی تھے مگر انہوں نے انہیں کنٹرول کرلیاتھا، موجودہ حکومت اگر تہیہ کرلے تو حالات درست کیے جاسکتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024