بلوں میں ہیر پھیر کی کہانیاں بھی کوئی راز نہیں۔ صنعتی شہروں میں بجلی کے کارندوں، افسران اور دیگر حکام وعملہ کی ملی بھگت سے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جاتے ہیں۔ کون سا خسارہ اور کون سا ملکی نقصان! وہاں صرف اپنا فائدہ اور ماہانہ آمدن کی سوچ پر ہی توجہ مرکوز رہتی ہے۔ بجلی، پانی، گیس غرض ہر بل میں چکربازی ہوتی ہے۔ اسی طرح نجی شعبہ ملازمین، محنت کشوں اور مزدوروں کو ان کا وہ جائز معاوضہ ادا نہیں کرتا جن کی مشقت سے کارخانے زندگی پاتے ہیں لیکن انہیں زندگی دینے والے روٹی روزی کے تنگی کے عذاب سے نجات نہیں پاتے۔ انکی پیاس پیاس ہی رہتی ہے۔ دوسری جانب جنہوں نے پکڑنا ہے وہ افسران، محکمے اور عملہ خود لین دین سے سارے معاملات کو چلاتے ہیں۔ پھر ڈر کاہے کا۔ ’’کھلا کھائو ، تے موج اڑائو۔
معروف ’ہاو سنگ ٹائیکون‘ نے اپنے انٹرویو میں اس حقیقت کا برملا اظہار کرکے اس متعفن اور بدبودار نظام سے پردہ اٹھایاتھا کہ ’میں فائل کو پہئے لگادیتا ہوں۔ان حالات میں جب کوئی سرمایہ کاری کرتاہے، اربوں روپے ملک میں لگاتا ہے تو وہ یقینا اپنے منافع کا خواہشمند ہوتا ہے۔ وہ نقصان کے خطرے کیمطابق ہی اپنا منافع وصول کرنا چاہے گا۔ امورکاروبار نبھانے میں رکاوٹوں کو پھاندنے میں نذرانے اور لین دین بھی بلاشبہ لاگت میں ہی شامل کیاجائے گا۔ مقامی کاروباری جو دھندے کرتا ہے اور جس طرح ٹیکس بچاتا ہے یا بلوں میں ہیر پھیر، ڈنڈی مارکر کام چلاتا ہے تو غیرملکی سرمایہ کار بھی وہ تمام فوائد اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کریگا تاکہ وہ مقابلے کی فضاء میں اپنے مفاد کی نگہبانی کرے۔پاکستان میں کاروباری علوم کی عالمی شہرت یافتہ درس گاہ (LUMS) یونیورسٹی میں اس کالم نگار کے استاد مکرم و محترم جناب الماس حیدر نے قرض اور اندیشۂ زیاں کا باہمی تال میل بڑے عام فہم انداز میں پڑھاتے ہوئے بتایا تھا کہ عالمی سود خور ادارے نادیدہ خطرات کی درجہ بندی کرتے ہیں اور اسکے حساب سے اپنی من مرضی سے شرح سود کا تعین کرتے ہیں
چین پاکستان میں 62ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لایا ہے جن میں قرضوں کی شرح تجارتی نرخوں پر ہے۔ یہ سرمایہ کاری اس نے کاروباری خطرہ مول لیکر کی ہے۔ امریکہ، جاپان، برطانیہ یا پھر یورپ کی بات کی جائے تو جو بھی سرمایہ لاتا ہے، لگاتا ہے تو وہ ایک ڈالر کے بدلے 99 سینٹ واپس لیجانے کی کوشش کرتا ہے۔ ڈونر اپنی جو چیزیں لاتے ہیں وہ اپنے ملک سے لاتے ہیں خواہ اسکی قیمت کتنی ہی زیادہ نہ ہو۔ یہ ممالک سامان لاتے ہیں تو اپنے ہی جہازوں پر لاتے ہیں خواہ باربرداری کتنی ہی مہنگی کیوں نہ پڑے۔ انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ چاہے کسی اور ذریعے سے وہی شئے سستی مل رہی ہو لیکن انہیں اس سے دلچسپی نہیں ہوتی اس لئے کہاجاتا ہے کہ امیر ڈونرز بدنام زمانہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح سلوک اور برتائو کرتے ہیں۔ سرد جنگ کے اختتام تک امریکہ پاکستان جیسے ممالک کیلئے ایک نئی نوآبادیاتی سامراجی طاقت بن چکاتھا۔
پاکستان کے پاس ہنرمند افرادی قوت کی سنگین کمیابی ہے۔ پلمبر، الیکٹریشن، مالی سے لے کر خادمین تک ہمارے پاس تربیت کا فقدان ہے۔ بعض معاونین کے بارے میں تو سرے سے تربیت کا رواج ہی نہیں کہ تربیت نام کی بھی کوئی چڑیا ہوتی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی نَس نَس میں معاشی، تجارتی اور اقتصادی خون دوڑانے کیلئے تربیت یافتہ ہنرمند افرادی قوت درکار ہے۔ ملک میں اتنے بامقصد اور قابل انجینئرز بھی ہم پیدا نہیں کررہے جس قدر درکار ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چین اپنے انجینئرز لارہا ہے تاکہ اس رفتار سے کام آگے بڑھ سکے جو سی پیک کیلئے مطلوب یا ضروری ہیں۔ (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024