بیت المال میں اسلامی ریاست کے حکمران کا حق کس قدر ہے ؟ اس کا جواب ہمیں حضرت عمر فاروقؓ کے ایک خطبہ سے مل جاتا ہے، فرمایا: سرکاری خزانے پر بطور خلیفہ میرا کوئی استحقاق نہیں ۔ آپ لوگوں کی طرح میں بھی ایک عام انسان ہوں ۔ اس میں سے میرے لئے جو حلال ہے وہ ہیں کپڑوں کے دو جوڑے ایک گرما کیلئے دوسرا سرما کیلئے۔ اہل خانہ کے لئے قریش کے ایک اوسط آدمی کے برابر معاش اور بس۔
ایک اور جگہ پر فرمایا کہ بیت المال کے حوالے سے یہ بہت ضروری ہے کہ حق کے ساتھ لیاجائے حق کے ساتھ دیا جائے اور اس میں باطل کا عمل دخل ہرگز نہ ہو ۔ مزید فرمایا کہ قوم کے مال کے ساتھ میرا تعلق وہی ہے جو یتیم کے مال کے ساتھ ولی کا ہوتا ہے ۔ خلیفہ بننے سے پہلے حضرت ابو بکر صدیقؓ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے ۔ خلیفہ منتخب ہو ئے تو کاروبار چھوڑ دیا اور شوریٰ نے اخراجات کے لئے ایک معمولی سی رقم مقرر کر دی ۔ کسی نے اس میں اضافے کا عندیہ دیا تو صدیق اکبر نے فرمایا : حکمرانوں کا حساب سب سے بھاری ہوگا اور ان کی سزا بھی بے حد کڑی ہوگی۔
عام لوگ اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ ان کا حساب بھی ہلکا اور عذاب بھی ہلکا، اور حکمرانوں پر یہ بھی لازم کہ ریاستی امور کی انجام دہی میں دھوکہ دہی ، دو نمبری اور خیانت نہ کریں جس نے یہ کیا اس نے اپنی عاقبت گنوالی۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ’’ جو حاکم رعیت کے ساتھ مخلص نہ ہو اور ان کی خدمت میں جان نہ لڑا دے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے گویا اسلامی ریاست کی سربراہی پھولوں کی سیج نہیں ، کانٹوں کا بستر ہے ۔ریاست مدینہ میں قانون سب کے لئے برابر تھا۔ یہ نہیں کہ عام آدمی جرم کرے تو قانون پوری قوت کے ساتھ نافذ ہو، اور کسی بڑے حسب نسب والے سے وہی جرم سرزد ہو تو ہاتھ ہولا رکھا جائے ۔عرب کے ایک با ر سوخ قبیلے بنی مخزوم کی ایک خاتون ، فاطمہ بنت قیس نے چوری کی ۔ تو بعض اصحاب نے عرض کی کہ یہ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں ۔ سخت سزاکے سبب کہیں برگشتہ ہی نہ ہو جائیں ۔ جس پر جناب رسالتماب ؐکے روئے مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا ، فرمایا ۔
’’ تم سے پہلے کی قومیں اسی لئے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی عام آدمی جرم کرتا اسے سزا دے دی جاتی اور جب وہی جرم بڑے رتبہ کے لوگ کرتے تو انہیں معاف کر دیا جاتا تھا خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت قیس کی جگہ فاطمہ بن محمد بھی ہوتی تو میں اسے بھی یہی سزا دیتا‘‘۔
اس وقت کی دنیا میں ریاست مدینہ پر امن ترین جگہ ہے۔ جہاں کے باسی ایک دوسرے کے لئے سراپا اخلاص اور باہمی حقوق کا احترام کرنے والے تھے ۔حضرت ابو بکر صدیقؓ خلیفہ بنے تو عمر رسیدہ ہونے کے علاوہ صحت بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی۔حضرت عمر فاروقؓ کی خواہش پر قاضی کی ذمہ داریاں انہیں سونپ دی گئیں ۔ پورا سال گزر گیا اور قاضی کے پاس ایک مقدمہ بھی نہ آیا۔ آتا بھی کیونکر ؟ کیونکہ نبی پاکؐ کی تربیت کافیض، کہ باہمی تنازعہ و مخاصمہ کی نوبت ہی نہیں آتی تھی ۔ اگر کوئی چھوٹا موٹا مسئلہ ہوتا بھی تو فریقین خود ہی تصفیہ کر لیتے ۔
ریاست مدینہ کی عدلیہ کلیۃً آزاد اور اس کے فرائض میں حکومت کی بڑی سے بڑی شخصیت بھی دخل اندازی نہیں کر سکتی تھی۔ اسلامی ریاست کی حدود وسیع ہوتی گئیں ۔ مال و اسباب کی کثرت ہوگئی اور ایک مالدار طبقہ وجود میں آگیا تو حضرت عثمان غنی کے زمانے میں صاحب ثروت اور نادار لوگوں کے اثاثہ جات کی الگ الگ فہرستیں بنائی گئیں تاکہ امیر اور غریب کے فرق کو مناسب حدود میں رکھا جا سکے۔مبادا یہ تفاوت سوسائٹی میں انتشار کا سبب بن جائے ۔ دوستو ! آج ہم ریاست مدینہ کے ساتھ ساتھ اپنے حکمرانوں کی سادگی کا ذکر بھی سنتے ہیں ۔ وزیراعظم سمیت تقریباً سبھی قابل ذکر حکومتی عہدیدار سرکاری محلات چھوڑ کر چھوٹی جگہوں پر ٹھکانہ کر چکے ۔ بے شک ان کا یہ اقدام احسن۔ مگر سن لیجئے کہ ریاست مدینہ کے بانی و حاکم اول جناب رسالتمابؐ کا وقت آخر آیا تو اس شب گھر میں چراغ جلانے کے لئے تیل میسر نہ تھا جو حضرت عائشہ نے پڑوس سے عاریتہ منگوایا۔ اس زمانے کے شرفاء کی ایک بڑی دولت یعنی آپ ؐ کی زرہ بکری ایک یہودی کے پاس رہن پڑی تھی۔ یہ لائف سٹائل اللہ کے نبیؐ نے اپنے لئے خود چنا تھا ۔ ورنہ چاہتے تو دنیا و جہاں کے وسائل جمع کر لیتے۔ آپؐ نے تو صدقات و زکوٰۃ و ریاستی اموال سے بھی اپنے آپ کو الگ رکھا کہ بنو ہاشم اور سادات کے لئے یہ سب جائز نہیں ۔ وما علینا …
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024