سبز باغ دکھانا … حقیقت یا افسانہ
مکرمی! سبز رنگ دیکھنے سے آنکھوں کو ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ کھیتوں میں فصلوں کے معاملہ میں سبز رنگ اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا ہے۔ سبزہ دیکھ کر انسان بڑا محظوظ ہوتا ہے۔ ہریالی دلی طورپر انسان کو سکون بخشتی ہے۔ سبز باغ دکھانا اگرچہ ہم اپنی روزمرہ کی زبان میں استعمال کرتے ہیں لیکن اس محاورے کے پیچھے خلوص کی قوت کا فقدان ہے۔ یہ بدقسمت محاورہ خلوص سے عاری ہے اگر معاشرے پر مجموعی طورپر نظر ڈالی جائے تو یہ محاورہ ہمیں مختلف شکلوں میں ملتا ہے۔ سیاسی لوگ جب الیکشن کے لئے میدان میں اترتے ہیں تو سبز باغ والے محاورے کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ اس وقت عوام کو خوب سبز باغ دکھاتے ہیں۔ منتخب ہو کر ہم عوام کے لئے یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ وہ یہ سب کچھ اپنے موقف کی حمایت میں کہہ رہے ہوتے ہیں۔ دوسروں لفظوں میں سبزباغ دکھا رہے ہوتے ہیں۔ جب منتخب ہو کر وہ عوام کے لئے کچھ نہیں کر پاتے اور اپنی مجبوریوں کی آڑ لیکر اپنی ناکامی پر پردہ ڈال رہے ہوتے ہیں اس وقت اس محاورے کا خلوص دم توڑ جاتا ہے۔ اب دوسری مثال سبز باغ دکھانے کے بارے میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی ہے۔ جب وہ تعمیراتی منصوبے شروع کرتی ہیں تو اپنے تعمیراتی منصوبوں کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ اچھائیاں اور منصوبہ کے مثبت پہلو بیان کرتے تھکتے نہیں۔ دوسرے لفظوں میں سبز باغ دکھاتے تھکتے نہیں۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ تعمیراتی منصوبے بہت کم پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں‘ راستہ ہی میں دم توڑ جاتے ہیں۔ سب کچھ جاننے کے باوجود ہم ایسے منصوبوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں کیونکہ انسان لالچی واقع ہوا ہے۔ ایسے منصوبوں کے کرتا دھرتا لوگ بڑے ہوشیار اور عیار ہوتے ہیں اور عوام ان کے اندرون خانہ عزائم سے آگاہ نہیں ہوتے‘ آسانی سے ان کے دام فریب میں آ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں اگر یہ کہا جائے کہ کاروبار بھی کرپشن میں اپنا حصہ ڈالتا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ حکومت کرپشن پر قابو پانے کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہی ہے تو اس کو ایسے منصوبوں کی چھان بین کرنی چاہئے۔ جب تک ہم سبز باغ دکھانے والی مصنوعی دنیا سے باہر نہیں آئیں گے کرپشن سمیت معاشرے کی دوسری برائیوں پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ (رشید احمد مکان نمبر گلستان کالونی واہ کینٹ)