عجب نفسا نفسی… … شرافت ضیاء
شفف رکھتا ہے لیڈر یوں تو ہر قومی بھلائی سے
مگر محتاط ہے تھوڑا سا عملی کاروائی سے
خدا کے ساتھ اس کی قربتوں کا یہ تقاضا ہے
تعلق کچھ نہ کچھ ویسا ہی ہو اس کی خدائی سے
کہیں جو ڈھنگ سے کوئی کام کرنا ہو ذرا مشکل
وہیں پہ کام چل جاتا ہے پھر ٹھوکاٹھکائی سے
عجب اک نفسا نفسی کا ہے عالم ہر طرف یارو
کہ بھائی ہورہا ہے بدگماں اپنے ہی بھائی سے
کسی کو کیا پڑی ہے خواہ مخواہ زندیق کہلائے
جہاں پر کام چلتا ہو بظاہر پارسائی سے
لکھے تھے ڈاکٹر نے قیمتی سے قیمتی نسخے
افاقہ ہوگیا کافی مجھے اس کی دوائی سے
کوئی گھر میں نہیں رکھتا مسہری پھر بھی کیاغم ہے
باحسن کام چل جاتا ہے اکثر چارپائی سے
بڑا روکا تھا شاہ جی کو نہ اپنی پارٹی بدلو
انہیں لیکن کہاں رکنا تھا قسمت آزمائی سے
ضیاء کشکول ٹوٹا ہے کبھی شاید نہ ٹوٹے گا
ہماری جان چھوٹی ہے نہ چھوٹے کی گدائی سے