مردم شماری‘ حکومت آئینی ذمہ داری نہیں نبھا رہی‘ 2018 کے الیکشن کیلئے ہونگے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس میں مردم شماری کرانے کی حتمی تاریخ اور فریم ورک طلب کرتے ہوئے سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کر دی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ بڑا سنجیدہ معاملہ ہے مردم شماری نہ ہونے سے عدالت کو تو نہیں مگر عوام کو فرق پڑتا ہے جن لوگوں کا مفاد ہے وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ سسٹم جوں کا توں رہے معاملات اسیے ہی چلتے رہیں، مردم شماری کرانا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے جو پوری نہیں کی جا رہی، عدالتی احکامات کے ساتھ یہ ہی کچھ ہوتا رہا تو عدالتوں کے بارے میں یہی تاثر جائے گا کہ یہ صرف باتیں ہی کرتی ہیں کام نہیں کرتیں۔ اٹارنی جنرل نے پیش رفت رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت چاہے تو یہاں ہی اس کا جائزہ لے لے یا کمیٹی روم میں بریففنگ دے دیتے ہیں کہ کتنا کام ہوگیا اور کتنا رہ گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ایسی کاغذی کارروائیوں سے مسئلہ ہو جائے گا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مارچ، اپریل 2017ء میں مردم شماری کرا دیں گے۔ چیف جسٹس نے مردم شماری مارچ، اپریل 2017 میں کرانے کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ سب بے کار ہے 1998ء کے بعد مردم شماری ہونی تھی مگر 10سال گزر گئے اب کیا آئندہ 18سال میں مردم شماری کرائی جائے گی؟ پیرورک تیار کرنا کوئی مسلئہ نہیں چاہے سپریم کورٹ کے باہر دو ٹرک لاکر کھڑے کر دیں خالی جمع تفریق سے کچھ نہیں ہوتا ہمارا صرف ایک مقصد اور سوال ہے مردم شماری کیوں نہیں ہو رہی، حکومتی رپورٹ متاثر کن نہیں ایسی کوئی رپورٹ نہیں آئی جس میں فکسڈ ڈیٹ اور فریم ورک موجود ہو، مردم شماری وقت پر نہ ہوئی تو 2018 کے الیکشن کیسے ہونگے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ وزیراعظم و دیگر متعلقہ لوگوں سے ملے ہیں یہ معاملہ پاکستان کے مستقبل سے متعلق ہے، ہماری غلطی ضرور ہے مگر مردم شماری نہ ہونے میں ہماری کوئی بد نیتی شامل نہیں ،مردم شماری میں تاخیر کی موجودہ حکومت ذمہ دار نہیںسابقہ حکومتوں کا بھی قصور ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تاخیر کا ملبہ موجودہ حکومت پر بھی نہیں ڈالیں گے، مردم شماری میں تاخیر کی ذمہ دار ماضی کی حکومتیں بھی ہیں، موجودہ حکومت کو بھی ساڑھے تین سال ہو گئے ہیں، کام کی نیت ہو تو منصوبہ کا افتتاح پہلے ہوتا آن گرائونڈ کام شروع ہو جاتا ہے جبکہ بعد میں پی سی ون بنتا ہے، ایسے منصوبے پھر عدالتوں میں چیلنج اور کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں، پہلے مردم شماری کیلئے 2016 کی تاریخ دی گئی، پھر فوج کی عدم دستیابی کو جواز بنا لیا گیا ہے، یہ بات تو ٹھیک ہے فوج کا لیٹر بھی فائل میں موجود ہے مگر قانونی طور پر مردم شماری کیلئے فوجی اہلکاروں کا ساتھ ہونا ضروری نہیں، پورے ملک میں مردم شماری ایک دن میں کرانے کی کوئی پابندی قانون میں موجود نہیں، اگر مارچ اپریل میں مردم شماری ہوگی تو ممبران اسمبلی کی سیٹوں میں اس حساب سے ترامیم کسیے ہوں گی 2018ء کا الیکشن سرپر آجائے گا اور الیکشن کے بعد کہا جائے کہ مردم شماری ہوئی نہیں لہذا سسٹم کو جوں کا توں چلنے دیا جائے۔