دو پولیس انسپکٹرز کے قتل کا معمہ!
احمد جمال نظامی
”میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں ۔۔۔سارے شہر نے پہن رکھے ہیں دستانے “اس شعر کی پیشانی کے ساتھ شہر بھر میں گزشتہ ہفتے سے آویزاں کئے جانے والے بینرز پر دو پولیس سب انسپکٹر ز رانا عاطف اور رانا حفیظ کے قاتلوں کو نہ پکڑنے پر فیصل آباد پولیس پر افسوس ہے کی عبارت درج ہے جس میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اور آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا سے اپیل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انصاف کی فراہمی تک پکار جاری رہے گی ‘ رانا محمد عاطف اور رانا حفیظ کو کئی ماہ قبل نا معلوم افراد کی طرف سے قتل کر دیا گیا تھا ۔رانا محمد حفیظ پٹرولنگ پولیس کے پبلک ریلیشن آفیسر کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے کہ انہیں عبداﷲ پل پر الصبح نامعلوم موٹرسائیکل سوار افراد نے فائرنگ کرکے موت کے گھاٹااتار دیا ‘ رانا محمد حفیظ مرحوم کو ریسکیو1122کے اہلکار ایمبولینس میں ہسپتال بھی لے کر گئے اور انہوں نے راستے میں ریسکیو1122کے اہلکاروں کو اس کے علاوہ کوئی معلومات نہیں دی کہ انہیں نہیں معلوم انہیں کب اور کیسے گولی مار دی گئی ‘ اس جائے وقوعہ پر ایک اعلی پولیس افسر کا ڈرائیور بھی پہنچا تھا جو اس افسر کے بچوں کو سکول چھوڑ کر واپس جا رہا تھا تا ہم قتل کا یہ معمہ نا صرف حل نہیں کیا جا سکا بلکہ بہت سارے سوالات اور قیاس آرائیاں اپنے طور پر منظر پر موجود ہیں ‘ لیکن پولیس کسی قسم کی پیش رفت کرنے میں بری طرح ناکام ہے ‘ رانا محمد عاطف سب انسپکٹر فیصل آباد کے مختلف تھانوں میں بطور انچارج اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے ‘ بالخصوص سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر فیصل آباد کیپٹن (ر) امین وینس کے وقت وہ فیصل آباد میں پولیس مقابلوں کے حوالے سے شہرت پا کر کرائم فائٹر پولیس انسپکٹر کے طور پر متعارف ہوئے۔ بیشتر ذرائع ماضی میں مسلم لیگ ن جڑانوالہ کے صدر رانا محمد اصغر کے اشتہاری بیٹے رانا محمد عمران جو کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو بھی مطلوب تھا اس کے پولیس مقابلے میں رانا محمد عاطف کے کردار کو اہم کردار کے طور پر بتاتے تھے رانا محمد عاطف کو چند ماہ قبل چک جھمرہ روڈ پر واقع مہندی محلہ ریلوے پھاٹک پر نا معلوم موٹرسائیکل سوار ملزم کی طرف سے فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا اس وقت رانا محمد عاطف کے ساتھ ان کی گاڑی میں ان کا ڈرائیور موجود تھا جو جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا ‘ رانا عاطف کو جن دنوں قتل کیا گیا وہ فیصل آباد ڈویژن کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں تعینات تھے اور اس وقت کے ڈی پی او ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ساتھ ان کے اختلافات کی وجہ سے ان کو معطل کیا گیا ہوا تھا اور شائد یہی وجہ تھی کہ رانا عاطف کے اہلخانہ نے ابتدائی طور پر ان کے قتل کے فوری بعد ڈی پی او ٹوبہ ٹیک سنگھ کے خلاف مقدمہ درج کروانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن بعدازاں بیشتر حقائق کے پیش نظر رانا عاطف کے اہلخانہ نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا ‘ رانا عاطف اور رانا حفیظ کے قتل کی وارداتوں کا سراغ نہ لگنا اور پھر شہر بھر میں ایسے گمنام بینرز کا آویزاں ہونا اس امر کی لازمی نشان دہی کرتا ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے رانا عاطف کے قتل کے بعد با وثوق پولیس ذرائع کے مطابق دو ڈی ایس پیز اور تین ایس ایچ اوز نے اپنے طور پر اس مقدمہ کو ٹریس کرنے کےلئے تگ و دو شروع کی لیکن کسی بھی جگہ پر ان کو تفتیش کے حوالے سے کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی ‘ کیونکہ ذرائع کے مطابق وہ رانا عاطف کا موبائل ڈیٹا اور اس کیس کے حوالے سے ہر قسم کی خفیہ معلومات حاصل کرنے میں ناکام رہے اور انہیں کسی بھی سطح پر کسی قسم کا کوئی مواد فراہم نہیں کیا گیا رانا عاطف کے قتل کے بعد مسلم لیگ ن فیصل آباد میں چونکہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاﷲ خاں اور وزیر مملکت پانی و بجلی چوہدری عابد شیر کے والد چوہدری شیر علی کے مابین اختلافات کھل کر سامنے آ گئے تھے اور چوہدری شیر علی طر ف سے رانا ثناءاﷲ خاں پر بھری پریس کانفرنس اور اقبال دھوبی گھاٹ میں جلسہ عام کے دوران بیس قتلوں کے الزام نے پورے ملک میں سیاسی ہلچل پیدا کر دی تھی لہذا رانا عاطف کے قتل کے فوری بعد چوہدری شیر علی نے میڈیا کے رو برو الزام عائد کیا کہ بھولا گجر قتل کیس میں ملک سے مفرور پولیس انسپکٹر رانا فرخ وحید کیونکہ رانا عاطف کیساتھ رابطے میں تھا اور وہ وطن عزیز واپس آ کر تمام حقائق سامنے لانا چاہتا تھا اس لئے اب میں کہتا ہوں کہ رانا ثناءاﷲ خاں پر رانا عاطف کے بعد بیس نہیں اکیس افراد کے قتل کا الزام ہے ‘ رانا عاطف کا قتل کس نے کیا اور کیوں کیا اس کی تفتیش کرنا اور پھر عدالت میں ملزمان کا گرفتاری کے بعد چالان پیش کرکے انصاف اور حقائق کے حقیقی تقاضے متعلقہ عدالت ہی سامنے لا سکے گی لیکن اتنا ضرور ہے کہ رانا عاطف کے قتل پر پولیس کی طرف سے کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہ کرنا حتیٰ کہ تفتیش کے عمل تک کو میرٹ اور روایت کے مطابق شروع نہ کرنا بہت سارے شکوک و شبہات اور سوالات کو جنم دیتا ہے ۔