قربانی کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے ۔اللہ پاک نے ہمیشہ ہی اپنے پیاروں سے مختلف اشکال میں قربانی لی ہے۔ اللہ کے وہ برگزیدہ بندے جن سے اللہ پاک نے قربانی طلب کی اور وہ قربانی دے کر سرخرو ہوئے ۔وہ آج بھی پوری دنیا کے لیے مثل راہ ہیں۔ حضرت ابراہیم کو اللہ پاک نے جب اپنا لخت جگر اللہ کی راہ میں قربان کرنے کو کہا تو انہوں نے اللہ کے حکم کے آگے سرنگوں کر لیا اور اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے اس کی گردن پر چھری چلا دی ۔مگر اللہ پاک نے اس وقت حضرت اسماعیل کو قربان ہونے سے بچا لیا۔ہاں بعد میں یہ قربانی حضرت اسماعیل کی آنے والی نسل سے اس طرح طلب کی ہے۔کہ ساری دنیا ان کی قربانی کی معترف ہے۔ وہ قربانی ا للہ پاک نے اپنے سب سے پیارے نبیؐ کی عزیز از جا ن بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کے بیٹے حضرت حسین ابن علیؓ کی ذات پر آکر قبول کی ۔رسول پاکؐ نے حضرت حسین ؓ کے پیداہوتے ہی اپنی پیاری بیٹی کو کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین ؓ کی شہادت سے باخبر کر دیا تھا۔یوں دیکھا جائے تو یہ آزمائش رسول پاک ؐ اور حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی بھی تھی۔ان سب سے اللہ پاک کی رضا کا احترام کیا ۔اور امام حسین ؓ کو اس آزمائش سے نبٹنے کے لیے ان کی فکری تربیت بھی کی ۔ حضرت امام حسینؓ کو ہر طرح سے تیار کیا گیا۔ آقا کریمؐ نے فرمایا کہ جتنی آزمائشیں مجھ پر آئیں کسی اور نبی پر نہیں آئیں۔بس ایک شہادت کا منصب رہ گیا تھاوہ بھی اللہ پاک نے آپؓ کے پیارے نواسے کی شکل میں آپؐ سے طلب کر لیا۔ امام حسین ٟؓجس کا بچپن شہر علم کے کندھوں پر سوار ہو کر مہر نبوت سے کھیلتے گزرا۔حسین ؓ وہ جو علم کے دروازے کا دربان رہا ۔حسین وہ جس کے لیے اللہ کے پیارے اور محبوب نبیؐ اپنے سجدے طویل کر دیتے تھے۔جس کے شب وروز کی تربیت کائنات کی دو عظیم ہستیوں حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ نے کی ہو ۔اس حسین ؓ کے علم دانش کی انتہا کیا ہو گی۔اسی علم کی وجہ سے آپؓ بہت دور تک نگاہ رکھتے تھے اور اسی علم کی وجہ سے آپؓ نے یزید کی بیت سے انکار کیا تھا۔اگر چہ آپؓ اپنے سفر کی حقیقت سے آگاہ تھے۔کوفہ میں ان کا بلاوہ کسی اور وجہ سے ہے ۔آپ یزید سے جنگ کے ارادے سے یا اقتدار کی خواہش کے لیے کوفہ کی طرف محو سفر نہیں ہوئے تھے۔بلکہ آپ ؓ یزید کو اتمام حجت کے لیے نصیحت دینے کے لیے اور کوفہ کے لوگوں کی دلجوئی کے لیے روانہ ہوئے تھے۔اس لیے ہی جب آپ کربلا کے مقام پر پہنچے تو اپنے رفقا کو کہا کہ یہیں خیمے لگا دو ۔آپؓ کو اپنی منزل نظر آرہی تھی۔انجام کی پوری خبر کے باوجود آپ اپنے ساتھ اپنے گھر والوں چھوٹے معصوم بچوں کے ساتھ پورے حوصلے اور جوش کے ساتھ وہاں پہنچے تھے۔آج اس امتحان کا وقت آن پہنچا تھا جس کے لیے انہیں بچپن سے تیار کیا گیا تھا۔آپؓ ان تمام مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ یہ امام حسین ؓ ہی تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی ذات پر دشمن کا ہر جبر برداشت کیا بلکہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے معصوم بچوں کو بھوک اور پیاس سے تڑپتے بھی دیکھا ۔اپنے ساتھیوں کو زخموں سے نڈھال بھی دیکھا۔ بیمار ساتھی بھی آپؓ کے سامنے تھے۔اپنی بیٹیوں ٟ بہنوں اور اپنی دوسری رشتہ دار خواتین کے چہروں سے ان کے اندر کا کرب بھی محسوس کیا۔بڑی سے بڑی تکلیف بھی آپؓ کے ارادے کو متزلزل نہ کر سکی۔آپؓ کو صرف اپنے رب کی رضا کی فکر تھی۔اسی مقصد کے لیے آ پ نے ہر مصیبت کا ہر تکلیف کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آج کے دور میں ہمیں واقعہ کربلا سے سبق لیتے ہوئے اپنی زندگیوں میں ایمان اور دین اسلام کی سر بلندی کی خاطر جابر سلطان اور ظالم طاقتوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کی ہمت اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ مسلمان آج پوری دنیا میں سخت مصیبتوں اور مسائل میں گرے ہوئے ہیں۔لگتا ہے آج بھی امت مظلوم کربلا میں ہی ہیں ۔ جابر اور ظالم طاقتیں آج بھی مسلمانوں پر ظلم کیے جارہی ہیں۔ ہر طرف خون مسلم بکھرا پڑا ہے ۔آج ہماری نہ جا ن محفوظ ہے نہ مال ٟ ہماری اولاد بھی دشمن کے نشانے پر ہے ۔ہماری زندگیاں آج خوف کے سائے میں ہیں۔ ہم ہر طرف سے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ایک طرف بھارت میں مسلمانوں کو ان کے مذہب کی بنا پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فلسطین میں پچھلی کئی دہائیوں سے یزیدی طاقتیں مسلمانوں پر ظلم و ستم کیے چلے جارہی ہیں۔شام اور یمن میں آج بھی مسلم خون بہایا جا رہا ہے ۔آج امام حسین کی ذات کو عملی شکل میں خر اج پیش کرنے کے لیے ان کے افکار کو مد نظر رکھا جانا چاہیے۔پوری دنیا میں مسلمان آج سخت مشکل میں ہیں۔مگر دنیا میں کہیں بھی آج مسلمانوں میں یزیدی طاقتوں کے خلاف کلمہ حق کہنے کی ہمت نظر نہیں آرہی ہے۔ صرف دس دنوں کے لیے ان کی یاد میں جلسے جلوس اور محفلیں سجائی جاتی ہیں۔اگر مسلمانوں نے دنیا میں عزت سے جینا ہے تو انہیں امام کے دیے ہوئے بہادری اور جانباذی کے اسباق کو اپنی پوری زندگیوں میں شامل رکھنا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38