غیر حاضری کی بنیادی وجہ وطن عزیز کے سیر سپاٹے تھے اپنی ”مٹی“ جسے ”ماں“ کا درجہ دیتا ہوں اسے بوسہ دینا ایمان کا حصہ بنا رکھا ہے اس لیے اس کوشش میں رہتا ہوں کہ اس فرض میں کوتاہی واقع نہ ہونے پائے۔
لاہور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر سرکاری خدمات سرانجام دینے والے ادارے جن میں ایف آئی اے (پاسپورٹ امیگریشن) اے ایس ایف، کسٹم، پولیس، سپیشل برانچ، اور نارکوٹکس شامل ہیں ان کی کارکردگی پہلے سے قدرے بہتر پائی۔ سامان لے جانے کے لیے وہ ٹرالی، جو کبھی پورٹروں، کے قبضہ سے آزاد نہیں ہو پاتی تھی، کھلے عام دستیاب تھی۔ گرین چینل کی سہولت تو موجود مگر RENDOMLY چیک جوں کا توں ہے؟؟
لاہور کی شاہراﺅں کی کشادگی کے حوالے سے اس بار بہت ہی مختلف پایا غیر قانونی تجاوزات کو گرانے کے بعد بیشتر سڑکیں اتنی کشادہ بنا دی گئی ہیں کہ بعض مقامات پر چھوٹا طیارہ آسانی سے اتارا جا سکتا ہے لاہور کی جدید پبلک ٹرانسپورٹ سروس جسے ”لاہور میٹرو بس“ کے نام سے اور بعض لوگ آج بھی ”جنگلہ بس“ کہہ کر پکارتے ہیں۔ خطیر رقم سے چلایا منصوبہ لگتا ہے....! لاہور کے بیشتر کاروباری علاقوں سے گزرنے والی ان BANDY BUSSES کو موٹر وے طرز پر قائم کیے گئے ٹریکس سے ہی گزرنا ہوتا ہے۔ مغربی طرز پر قائم کیے گئے اس منصوبہ سے سٹوڈنٹس، اور کاروباری طبقہ کو کافی زیادہ سفری سہولتیں دستیاب نہیں تاہم بلاشبہ یہ حقیقت ہے کہ اس ٹرانسپورٹ منصوبہ پر اربوں روپے خرچ کیے گئے ہیں.... شاہدرے سے اس بس میں سوار ایک طالب علم نے مجھے بتایا کہ ان ”بینڈی بسز“ میں چونکہ سیٹوں کا بدستور فقدان ہے اس لیے تیز رفتار سفر کی سہولت کی خاطر لوگ ان بسوں میں سفر تو کر رہے ہیں مگر اکثر و بیشتر یہ سفر کھڑے ہو کر ہی کرنا پڑتا ہے۔ معذور اور عمر رسیدہ افراد کو بس میں سیٹ پیش کرنے کا یہاں سرے سے کوئی کانسپٹ ہے ہی نہیں۔ اس لیے ان بسوں میں سفر کرنے کی بنیادی وجہ بغیر ٹریفک جلد از جلد منزل مقصود پر پہنچنا ہے۔
میٹرو بس کے اس منصوبہ پر چونکہ اربوں روپے خرچ کیے گئے ہیں اس لیے بیشتر طلبہ و طالبات کا کہنا تھا کہ حکومت پنجاب اتنی خطیر رقم جب اس ٹرانسپورٹ منصوبے پر لگا سکتی ہے تو بجلی اور گیس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خادم اعلیٰ پنجاب نے اقدام کیوں نہیں اٹھایا۔ ٹرانسپورٹ پر خرچ کی جانے والی یہی خطیر رقم اگر لوڈشیڈنگ، دیہی تعلیم، اور بے روزگاری کے خاتمہ پر لگا دی جاتی تو لاہور ، راولپنڈی، اور ملتان کے دیگر مسائل سے دو چار عوام کی حالت بدلی جا سکتی تھی....!
پنجاب کے سابق گورنر اور تحریک انصاف پنجاب کے چیف آرگنائزر اپنے چودھری سرور سے ملاقات کا باضابطہ وقت طے کروانا، برادرم طاہر انعام شیخ کے ذمہ تھا کیونکہ چودھری سرور اپنے امیدوار علیم خان کی سیاسی کمپی¿ن کے سلسلہ میں کافی مصروف تھے۔اس لیے ان سے ملاقات نہ ہو سکی اور یوں میں ان کے ٹیلی فون کا انتظار ہی کرتا رہا۔
اپنے اخبار نوائے وقت سے چونکہ میرا تیس سالہ پرانا رشتہ ہے اس لیے جہاں وطن کی مٹی کو بوسہ دیتا ہوں وہاں اب ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم کی صحافتی، علمی اور انسان دوستی پہ مبنی خدمات کو بھی سلام کرنا فرض میں شامل کر لیا ہے۔ نوائے وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر جناب سعید آسی نے اپنے دفتر میں استقبال کیا ایڈیٹر انچیف رمیزہ صاحبہ لاہور سے باہرتھیں اس لیے ان سے مرحوم نظامی صاحب کی تعزیت تو نہ ہو سکی مگر آسی صاحب سے ان کے بھائی اور نظامی صاحب کی تعزیت کی۔
ممتاز صحافی اور کالم نگار اسد اللہ غالب کا رشتہ بھی چونکہ نوائے وقت سے ہے ان کی اہلیہ کی رحلت پر ان سے تعزیت کی بڑے پرتپاک طریقہ سے ملے۔
محترم شعیب بن عزیز کو اپنی لاہور آمد کی اطلاع دی تو اس وقت اپنی محبت اور چاہت کو عملی شکل دینے پر تیار ہو گئے اپنے دفتر بلوایا اور برطانیہ سے آئے ایک دو اور صحافیوں سے ملاقات کروا دوں۔ اس طرح سابق ایم این اے میاں محمد آصف نے لاہور میں ہی مسلم لیگ کے ہم خیال دوستوں سے حادثاتی ملاقات کروا دی میاں محمد آصف ایک ایسے گھر لے گئے، جہاں سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ محترم غوث علی شاہ، برادرم اقبال ڈار، میجر عباسی، رضوان شیخ و متعدد سابق اراکین اسمبلی اور یوتھ ونگ، کے بھاری اراکین کی تعداد موجود تھی۔ غوث علی شاہ نظریہ پاکستان کے ایک اجلاس کے سلسلہ میں آئے ہوئے تھے انہوں نے ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم کی صحافتی اور قومی خدمات کو بھرپورخراج تحسین پیش کیا۔ ممتاز عسکری تجزیہ نگار جنرل غلام مصطفی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی بلاشبہ یہ طے ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت جنرل راحیل شریف کی طرف دیکھ رہی ہے ایسا کیوں؟ اس پر آئندہ قسط میں!
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024