شکر ہے کہ خورشید محمود قصوری بخیر و خوبی واپس آ گئے۔ وہ تو اللہ کی مہربانی ہوئی بھارت میں منہ کالا کرنے کے لیے قصوری صاحب کے میزبان سابق بھارتی وزیر شذیر سندھندرا کلکرنی کا منہ کالا کیا اور مارا پیٹا۔ میرے دانشور دوست جنرل جاوید کہتے ہیں۔ اطلاعاً عرض ہے کہ جرنیل بھی دانشور ہوتے ہیں۔ آج کل عسکری تجزیہ کاروں کا ہجوم ایک جیسی باتوں اور وارداتوں کو دہرائے چلا جاتا ہے کہ اینکر اور اینگر میں فرق مٹ جاتا ہے اور پھر پروگرام ختم ہو جاتا ہے۔ جنرل جاوید بھی میری طرح خورشید قصوری کے دوست ہیں۔ میں ان کا زیادہ دوست ہوں۔ جنرل جاوید نے بڑی پریشانی سے کہا کہ اگر انتہا پسند شیوسینا ہندوئوں کے ہتھے خورشید قصوری چڑھ جاتے اور وہ ان کا منہ کالا کر دیتے تو ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہتے۔ خورشید قصوری بلند آہنگ اور بہت بلند و بالا شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی گرج دار آواز سن کر بڑے بڑوں کو چپ لگ جاتی ہے۔ وہ بات دلیل سے کرتے ہیں مگر زوردار انداز میں کرتے ہیں دبنگ لہجے میں بات کرتے ہیں۔ بطور وزیر خارجہ کامیاب تھے کہ وہ صدر پرویز مشرف کے وزیر خارجہ تھے۔ مشرف صاحب کی اب بھارت کے ساتھ اور کشمیر کے حوالے سے پالیسی بدل گئی ہے مگر قصوری صاحب کی پالیسی نہیں بدلی وہ کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے لئے امن کا ماحول بہت ضروری ہے دونوں ملکوں کو نقصان پہنچ سکتا۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کا فائدہ کس کو پہنچے گا۔ وہ جانتے ہیں مگر بتاتے نہیں ہیں۔ ابوالکلام آزاد نے شورش کاشمیری کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوئوں نے سیکولر ازم کے نام پر تحریک آزادی چلائی۔ مسلمانوں نے مذہب کے نام پر تحریک پاکستان چلائی قائداعظم کی رہنمائی میں مسلمانوں نے دو تحریکیں چلائیں۔ تحریک پاکستان اور تحریک آزادی بیک وقت چلائی؟ ابوالکلام نے کہا کہ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی آ جائے گی۔ اور پاکستان میں سیکولرازم کی بات کرنے والے زور پکڑ لیں گے۔ اس میں قصور مذہبی لوگوں کا بھی ہو گا۔
دہلی میں خورشید محمود قصوری کی کتاب کی اچھی تقریب ہو گئی تھی۔ تو پھر ممبئی میں تقریب کرانے کا مشورہ انہیں کس نے دیا تھا؟ دہلی میں کسی حد تک متوازن ماحول ہے۔ دہلی مسلمان بادشاہوں کا صدر مقام بھی تھا مگر یہاں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو اس کے اپنے دو سکھ سکیورٹی گارڈز نے قتل کر دیا تھا کہ اس کے حکم پر امرتسر کے سکھ مذہبی مرکز گولڈن ٹمپل میں بھارتی پولیس جوتیوں سمیت داخل ہو گئی تھی۔ دہلی میں ہزاروں سکھوں کی شامت آ گئی۔ دہلی کی گلیاں سکھوں کے خون ناحق سے لہولہان ہو گئیں ’’سیکولر‘‘ بھارت کا کالا سیاہ بھیانک چہرہ دنیا کا منہ چڑا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندو انتہا پسندی دہلی میں بھی ہے۔ یہ مذہبی جنونیت بھارت میں ہر کہیں ہے۔ ہندو صرف ہندو ہوتا ہے۔ بظاہر متوازن بھی ہو تو پاکستان دشمنی اور مسلمان دشمنی اس کے خمیر میں ہے اور وہ اکثریت کے خمار میں بھی ہیں مگر بھارت میں عنقریب مسلمان اکثریت میں ہونے والے ہیں۔ بھارت اب مسلمانوں کی نسل کشی پر اتر آیا ہے۔ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد جہاں کہیں تیس چالیس کروڑ سے زیادہ ہوتی ہے تو کچھ نہ کچھ ہوتا ہے؟
اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے بعد کہا تھا کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ وہاں تو کچھ اور ڈوبنے والا ہے؟ بنگلہ دیش ایک پاکستانی ریاست کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ اندرا کو کچھ احساس تھا تو اپنا بھارتی بنگال بھی دے دیتی اور مکمل بنگلہ دیش منظر عام پر آتا۔ انتہا پسند بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ بنگلہ دیش ہم نے بنوا دیا ہے تو یہ اعتراف نیا تو نہیں ہے۔ ایسی ہی بات اندرا گاندھی نے کی تھی۔ سب دنیا جانتی ہے کہ بھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل نہ ہوتی تو بنگلہ دیش نہ بنتا۔ 16 دسمبر اصل میں بھارت کی مایوسیوں کا دن ہے کہ وہ اتنی جارحیت کے بعد بھی پاکستان کو ہراساں نہیں کر سکا۔ ہم پہلے سے بہت زیادہ طاقتور ہیں۔ مشرقی پاکستان بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ اسے الگ کیا جا سکے۔ آپ نقشے پر غور کریں۔ تقسیم ہند کا یہ انداز ہی غلط تھا۔ دونوں صوبوں میں نہ سرحدی رابطہ نہ پاک فوج کے لیے محاذ کا سانجھا انداز۔ اسی لیے کرنل ضرار جیسے دوست تقسیم ہند کے اس انداز کو غلط کہتے رہے اور کہتے ہیں کہ صحیح تقسیم ہند ہو کے رہے گی اور یہ واقعہ 2047 سے پہلے ہو گا۔ پاکستان کے محبوب سپہ سالار آرمی چیف جنرل راحیل شریف کہتے ہیں کہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ یہ ایجنڈا مکمل ہو گا اور تقسیم ہند کی اصل معرکہ آرائی بھی مکمل ہو گی۔
ہم پاک فوج اور جنرل راحیل شریف کے ارادوں کے ساتھ ہیں جو وہ پاکستان کے داخلی مسائل کو دہشت گردی اور کرپشن کے خاتمے کے ساتھ مربوط کر کے ختم کرنا چاہتے ہیں اور تقریباً ختم کر چکے ہیں۔ یہ بھارت کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ بھارت ہی پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ اسے اس شکست کے بعد اصل شکست کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہندو جنرل راحیل شریف سے ڈرتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھی ظالم بھارتی فوجیوں کو کشمیری حریت پسند جنرل راحیل شریف کی تصویر دکھاتے ہیں۔ کسی اور شریف کی تصویر نہیں دکھاتے۔ لوگ جنرل صاحب سے محبت کرتے ہیں اور ان کے منتظر رہتے ہیں۔ بھارت کے سامنے بھی ہم ان کی وجہ سے سر اٹھا کے بات کر سکتے ہیں۔ بھارت میں گائے کا گوشت کھانے کا جھوٹا الزام لگا کر ایک بھلے مانس بھارتی مسلمان محمد اخلاق کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ ایک مسلمان محمد نعمان کو گائے بھینس ٹرک میں لے جاتے ہوئے سمگلنگ کا الزام لگا کے تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ جاں بحق ہو گیا۔ بھارت گائے کا گوشت برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ تو وہاں لوگ گائے کا گوشت کھاتے ہوں گے۔ وہ کھائیں مگر بھارتی مسلمان نہ کھائیں۔ بھارت میں ایک ردعمل میں آ کے بیف پارٹیاں ہونے لگی ہیں۔ جہاں صرف گائے کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ انگلستان میں بیف مزیدار اور طاقتور سمجھا جاتا ہے۔
قصوری صاحب نے بھارت جانے کا جو ٹائم منتخب کیا ہے۔ یہ غلط تھا۔ آج کل پاکستان بھارت کے درمیان کشیدگی ہے۔ نواز شریف امریکہ گئے ہیں۔ جنرل راحیل شریف بھی اس کے بعد امریکہ جائیں گے۔ خورشید قصوری کسی اور موقع پر اپنی کتاب کی تقریب بھارت میں کرا لیتے۔ انہوں نے اپنی ضخیم اور اہم کتاب میں پاکستان اور بھارت کے موقف کو بیان کیا ہے اور امن کی بات کی ہے۔ کتاب بہت شاندار اور موٹی تازی ہے۔ قصوری صاحب کچھ اور محنت کرتے تو یہ کتاب 900 صفحات کی بجائے ایک ہزار صفحے کی کتاب ہوتی اور یہ کتاب اسلحے کے طور پر بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ اگر کھینچ کر ہندوئوں کی طرف پھینکی جائے تو دو چار بندوں کا بھرکس نکل جائے۔ مجھے یہ کتاب برادرم محترم قصوری صاحب نے بھجوائی تو میں نے اسے سنبھالنے کے لیے اپنی بیوی کو آواز دی۔ قصوری صاحب نے بہت محنت کی ہے۔ یہ کتاب صرف وہی لکھ سکتے تھے۔ ورنہ کسی اور میں نہ ہمت ہے نہ اہلیت کہ متنازع موضوع کو مناسب اسلوب دے سکے۔
بھارت میں عظیم گلوکار غلام علی کا کنسرٹ بھی منسوخ کرا دیا گیا ہے۔ کیا پاکستان میں کسی بھارتی فنکار کے آنے پر احتجاج بھی ہوا ہے۔ یہ ہندوئوں کی تنگ نظری اور پاکستان دشمنی ہے۔ بھارتی گیت پاکستان میں خوشدلی سے سنے جاتے ہیں۔ اصل میں بھارت ہم سے ڈرتا ہے۔ وہ پاکستان کو اپنے راستے میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ وہ کبھی کسی منزل پر نہیں پہنچے گا۔ پاکستان میں بھارت سے آنے والے ہر فنکار کو پروٹوکول دیا جاتا ہے مگر بھارت میں پاکستانیوں کے ساتھ اچھوت کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ ہم اچھوت نہیں ہیں۔ ہم اچھوتے ہیں۔ بھارت کے لیے تو انوکھے اچھوتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ کوئی پاکستانی بھارت نہ جائے۔ نجانے لوگوں کو کیا شوق چڑھا ہوا ہے؟
مودی کے دور میں بھارت کے اندر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگنے لگے ہیں۔ ہمارا کوئی حکمران کبھی ان کیلئے اتنا ہم نہیں ہوا، مگر ہمارے جنرل راحیل شریف نے انہیں کسی انجانے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔
میں حیران ہوں کہ وہاں کلکرنی جیسے لوگ بھی ہیں۔ وہ منہ کالا کرا کے بھی میزبانی کا حق ادا کر گیا۔ اس نے منہ دھویا نہیں بلکہ اسی طرح تقریب میں پہنچ گیا۔ اس نے تقریب کی بہت دلیری سے کمپیئرنگ کی۔ اس نے دنیا کو بتا دیا کہ پورے بھارت کا منہ کالا کیا گیا ہے۔ بھارت یہ کالک ساری دنیا میں برآمد کر سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے بھارتی جھنڈے کے رنگ کا لباس پہنا تھا۔ یہ لوگ بھارت دشمن ہیں جنہوں نے بھارت کے جھنڈے پر کالک پھیر دی ہے۔ قومی جھنڈا جلانا بھی غداری ہے مگر جھنڈے کو کالا کر دینا غداری کی انتہا ہے۔ میں کلکرنی جی کو سیلوٹ کرتا ہوں۔ اسے مبارکباد دیتا ہوں اور خورشید قصوری کا شکر گزار ہوں کہ ان کی وجہ سے بھارت کا یہ چہرہ دنیا والوں کے سامنے آیا۔ فیض احمد فیض نے یہ شعر انقلابی صورتحال کے حوالے سے لکھا ہے مگر بالواسطہ طور پر یہ کلکرنی جی کی جرات اور حوصلہ کی نذر بھی کیا جاتا ہے:
یہ ہمی تھے جن کے لباس پر سرراہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر کوئے یار چلے گئے
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024