پیر ‘ 5محرم الحرام 1437ھ ‘ 19 ؍ اکتوبر 2015ء
ایم کیو ایم کا باقاعدہ استعفے واپس لینے کا اعلان۔
ہر معاملے میں بے قاعدگیوں کی طویل فہرست کے باوجود اس بات کا کریڈٹ بہر حال ایم کیو ایم کو جاتا ہے کہ وہ کم ازکم استعفوں کی حد تک ہر بار نہایت ترتیب کے ساتھ باقاعدہ واپسی کا اعلان کر کے اس ایک مسئلہ پر کسی قاعدے اور قانون کی پابند نظر آتی ہے۔ ورنہ ہر کام میں ان کی بے قاعدگیاں جس طرح سامنے آ رہی ہیں اس پر تو لوگ الامان و الحفیظ کہتے پائے گئے ہیں۔
یہ ہماری سیاست کی بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ عوام جن لوگوں کو جماعتوں کو سر پہ بٹھا کر ایوان اقتدار میں لاتی ہے، وہی لوگ عوام کی امیدوں کا قتل کرتے ہیں۔ صرف اس پر بس نہیں بلکہ ملک وقوم دونوں کو لوٹنا اپنا حق سمجھنے لگتے ہیں، کیا یہی حق پرستی ہے ۔ اب معلوم نہیں حکومت نے ایسا کون سا پتہ چلایا ہے جو ٹھیک نشانے پر جا لگا اور ایم کیو ایم استعفے واپس لینے پہ آمادہ ہو گئی ہے۔ ورنہ فی الحال تو کراچی اور سندھ میں رینجرز نامی کرائم شکن تیر ہی اپنے ہدف تلاش کر کے خود ہی نشانے پر لگتا نظر آتا ہے۔
اگر ہمارے سیاست دان ذرا سی بھی دانشمندی کا مظاہرہ کریں اور پارلیمنٹ کو یوں
’’ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے‘‘
نہ بنائیں تو انہیں بار بار اس طرح کی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن لگتا ہے ابھی تک یہ لوگ ’’گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا‘‘ والی کیفیت سے باہر آنے کا نام بھی نہیں لے رہے۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
گدھے کی 1200 کھالیں ہانگ کانگ برآمد کرنے کی کوشش ناکام
خبر صرف اتنی ہی ہوتی تو کوئی تشویش کی بات نہ ہوتی۔ اصل تشویشناک بات تو یہ ہے کہ ان کا گوشت کہاں گیا۔ یہ کھالیں لاہور سے ہانگ کانگ بھجوائی جا رہی تھیں۔ ظاہر ہے کہ کھالیں پنجاب کے مختلف شہروں سے اکٹھی کی گئی ہوں گی۔ اب ہمارے ہاں باقاعدہ گدھوں کا مذبحہ خانہ تو کہیں نہیں اور نہ ہی انفرادی سطح پر اس کو ذبح کرنے کی اجازت ہے۔ یہ سارا کام نہایت راز داری سے اور مہارت سے انجام دیا گیا ہوگا کیونکہ ابھی گدھوں کے گوشت کی فروخت کا معاملہ ٹھنڈا نہیں پڑا اور انتظامیہ متحرک ہے۔
اس کے باوجود گدھے کا گوشت فروخت کرنے والے مافیا کے حوصلے دیکھ لیں کتنے بلند ہیں کہ انہوں نے تمام تر حکومتی پھرتیوں کے باوجود 1200 گدھوں کی کھال اتار لی تو لازمی طور پر ان کا گوشت ضائع تو کیا نہیں ہوگا۔ یہ گوشت مناسب قیمت پر قصائیوں کے توسط سے بڑے بڑے ہوٹلوں سے لے کر عام فٹ پاتھی ہوٹلوں تک میں بیچا گیا ہوگا۔ یوں ہزاروں لوگ لاعلمی کے باعث گدھا بریانی، گدھا کباب، تکے، گدھا کڑاہی اور قیمے کی شکل میں اڑا چکے ہوں گے۔
اب کون ہے جو ان 1200 گدھوں کے گوشت کا سراغ لگائے کہ کہاں گیا اور جنہوں نے یہ کھالیں جمع کی کہاں سے کیں، حضور ہمارے ملک میں گدھوں کی قربانی صرف سیاست میں دی جاتی ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر بھی اس کا امکان تک نہیں۔ اب حکمران اور انتظامیہ اس معصوم صورت جانور کے قاتلوں کا سراغ لگا کر انہیں عبرت کا نشان بنا دیں اور عوام کو مزید گدھا خوری سے بچائیں۔ پہلے ہی ہمارے ہاں عقل سے لے کر عمل تک میں گدھوں کی کمی نہیں اب یہ گوشت کھا کھا کر مزید گدھا پن گدھا خوروں میں آ گیا تو کیا ہوگا۔ کیا ہمارے ہاں حقوق وتحفظ ’’دراز گوش‘‘ یا ’’خر‘‘ بچائو تحریک والوں کا کوئی وجود نہیں جو اس بے ضرر جانور کا قتل عام رکوانے کیلئے اخباری صفحات کے ساتھ ساتھ احتجاجاً اپنا منہ بھی کالا کرے۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
خراب روشنی نے پاکستان کو انگلینڈ کے ہاتھوں یقینی شکست سے بچا لیا۔
ابوظہبی میں انگلینڈ کے خلاف کرکٹ میچ کے آخری روز دوسری اننگز میں ہمارے کھلاڑیوں نے جس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ میچ انگلینڈ باآسانی جیت جائے گا مگر آفرین ہے سورج پہ کہ اس سے ہمارے کھلاڑیوں کی بدترین کارکردگی دیکھی نہ جا سکی اور مارے شرم کے اس نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ یوں سورج کی روشنی کم ہونے کے سبب ہماری کرکٹ ٹیم کی عزت رہ گئی اور ہارتے ہارتے یہ میچ ڈرا ہو گیا یعنی ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوگیا۔
اب اسے ہم انگلینڈ کی بدقسمتی کہہ سکتے ہیں کہ ایک جیتا ہوا میچ سورج کی سازش کے باعث اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ سورج کو تو ویسے ہی گوروں کے دیس سے خدا واسطے کا بیر ہے۔
یورپ سے لے کر امریکہ تک کے کئی علاقوں میں یہ ہمیشہ نخرے دکھاتا نظر آتا ہے۔ لوگ اس کے رخ زیبا کانظارہ کرنے کو ترس جاتے ہیں مگر یہ ہمیشہ ان علاقوں میں بادلوں کی دبنیر تہہ اوڑھے یوں گزرتا ہے کہ دن میں بھی رات کا سماں نظر آتا ہے۔
اور جن یورپی علاقوں میں سورج میاں کے درشن ہوتے ہیں وہاں ہر وقت ساحلوں پر ’’سن باتھ‘‘ لینے والوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے اورشاید سورج میاں بھی اسی لئے بڑے ذوق وشوق کے ساتھ وہاں پوری آب وتاب سے چمکتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں تو سورج میاں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے گوروں کے ہاتھوں ہمیں شرمندہ ہونے سے بچا لیا۔ ورنہ ہمارے کھلاڑی تو میچ ہارنے کا تہیہ کر کے میدان میں آئے تھے۔
…٭…٭…٭…٭…٭…