اتوار 4 جمادی الاول 1445ھ، 19 نومبر 2023ئ

فلسطین میں جو ہو رہا ہے کشمیریوں کو اس سے سیکھنا چاہیے۔ سردار عتیق
کاش یہ سبق خود سردار عتیق الرحمن اور ان کے والد بزرگوار کے طویل دور حکمرانی میں کشمیریوں کو یاد کرایا گیا ہوتا۔ جب آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ بنانے کے بڑے چرچے تھے مگر افسوس یہ قیمتی وقت آزاد کشمیرکو لوٹ مار کا گڑھ بنا کر وہاں کرپشن کا ایسا درس دیا گیا کہ آزاد کشمیر کے حکمران آزادی کشمیر کا مشن بول کر یورپ اور برطانیہ جانے اور مظفر آباد میں بیٹھ کر کروڑوں روپے کمانے جائیداد بنانے اور بڑی بڑی گاڑیاں خریدنے میں مگن ہو گئے سرکاری عہدوں کی بندربانٹ اقربا پروری اور کرپشن نے آزاد کشمیر کا حلیہ بگاڑ دیا۔ مقبوضہ کشمیر سے جو مجاہدین آئے وہ یہاں کی حالت دیکھ کر پہلے تو بدظن ہوئے بعدازاں انہی کے رنگ میں رنگے گئے۔ جو محفوظ رہے وہ واپس جا کر لاکھوں بھارتی فوجیوں کے سامنے سین سپر ہو گئے۔ مسلم کانفرنس کے طویل دور حکمرانی میں سردار قیوم ہوں یا سکندر حیات یا خود سردار عتیق الرحمن۔ کیا کسی نے آزاد کشمیر کو آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کا بیس بنانے میں کوئی کام کیا۔ الٹا ایسا کہنے والوں کو ہی کھڈے لائن لگا دیا۔ ان پر غداری تک کے الزامات عائد کئے آج جب فلسطین لہو رنگ ہے غزہ کھنڈر بن چکا ہے سردار عتیق کو اگر فلسطین سے سبق لینا یاد آ گیا تو پھر بسم اللہ کریں آزاد کشمیر سے القسام نہ سہی القیامت بریگیڈ بنا کر کنٹرول لائن سے بھارت پر حملہ آور ہوں۔ فلسطینی مجاہدوں کی طرح مقبوضہ کشمیر والے تو پہلے ہی جہنم میں رہ رہے ہیں۔ ذرا اب ان کے ساتھ آزاد کشمیر کو بھی غزہ بنا کر دکھائیں۔ کیا سبق حاصل کرنا صرف مقبوضہ کشمیر والوں پر ہی فرض ہے۔ گفتار کے نہیں کردار کے غازی بنیں۔ ورنہ کاغذی مجاہد اول جیسے کردار بے شمار ہیں۔ اور سچ یہی ہے آزادی کے لئے سارے کشمیر کو غزہ بننا پڑے گا۔۔
نواز شریف بولا ہے تو میں بھی بولوں گا۔ جیل سے بھی الیکشن لڑوں گا۔ شیخ رشید
محسوس ہوتا ہے چلے کے اثرات ابھی تک شیخ رشید پر باقی ہیں۔ انہیں ایک مرتبہ پھر لگ رہا ہے کہ نادیدہ قوتیں انہیں سسرال کی یاترا کرانے پر تلی ہوئی ہیں۔ اسی لیے بڑے کہتے ہیں کہ کوئی بھی روحانی عمل کسی استاد کی اجازت کے بغیر نہیں کرنا چاہیے ورنہ الٹا پڑ سکتا ہے۔ خدا جانے یہ مراق کی کیفیت ہے یا مالیخولیا کی کہ شیخ جی نے خود کو نواز شریف کا مدمقابل سمجھنا شروع کر دیا ہے اور کہہ رہے ہیں کہ اب نواز شریف بول رہا ہے تو میں بھی بولوں گا۔ میں جیل (سسرال) جاؒؒؒؒو¿ں تب بھی الیکشن لڑوں گا۔ شکرہے یہ نہیں کہہ دیا کہ نواز شریف کیخلاف لڑوں گا۔ شاید جانتے ہیں کہ ان کی تمام تر سیاست صرف راولپنڈی کے اس حلقے کے اردگرد گھومتی ہے جس میں لال حویلی آتی ہے۔ ڈر ہے اگر رجعت زیادہ ہونے لگی تو کہیں نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد شیخ جی یہ اعلان کرتے نہ پھریں کہ اب میں بھی وزیر اعظم بنوں گا۔ ایسا تو تب نہیں ہوا جب ان کے پیرو مرشد بنی گالہ میں براجمان تھے اور روزانہ ہیلی کاپٹر پر وزیر اعظم جاتے تھے اگر وہ چاہتے تو شیخ رشید کو اپنی غیر حاضری میں قائم مقام وزیر اعظم کہلانے کا حق دے سکتے تھے۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا شاید قابل نہیں سمجھا۔ اب شیخ جی سارا غصہ نواز شریف پر نکال رہے ہیں وہ بھول رہے ہیں کہ یہ وہی نواز شریف ہیں جن کے وہ بوسے لیا کرتے تھے ان کے آگے مودب رہ کر ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے چکروں میں پیپلز پارٹی و دیگر سیاسی جماعتوں پر ان کے رہنماو¿ں پر رکیک حملے کرتے تھے۔ یہی چکر انہوں نے پی ٹی آئی کے دور میں کپتان کی خوشنودی کے لیے بھی چلایا اور خوب داد پائی۔ انہی باتوں کی وجہ سے عوام کے دلوں میں سیاست سے نفرت پیدا ہو گئی ہے۔
یہاں انصاف نہ ملا تو امریکہ میں ڈونلڈلو کیخلاف کیس کرینگے۔ علیمہ خان
چلیں یہ بھی اچھا ہے۔ کم از کم یہاں نہ سہی امریکہ میں ہی سچ کا بول بالا ہو گا۔ یوں سائفر کیس کا انجام سب کے سامنے ہو گا۔ علیمہ خان کے بقول قید میں ان کے بھائی نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اب ان کے اس بیان کے بعد امید ہے جلد ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ویسے بھی لوگ سائفر کیس کا سن سن کر بیزار سے ہو گئے ہیں۔ مگر کیا ایسا ہو گا بھی یا نہیں کیا یہ بھی صرف سائفر کا کاغذ لہرانے والی دھمکی کی طرح صرف دھمکی ہی رہے گی۔ اب اس بیان کے بعد زلفی بخاری، اسلم گل کا کیا بنے گا جسے امریکہ میں وہاں کی حکومت اور سرکاری عہدیداروں کے ساتھ تعلقات مضبوط اور بہتر بنانے کا ٹاسک چیرمین نے ہی دیا تھا۔ ان کے علاوہ امریکہ میں مقیم تحریک انصاف کے مال دار رہنما بھی تعلقات میں بہتری کیلئے کوشاں ہیں۔ وہ پریشان ہوں گے کہ ان کے کئے کرائے پر پانی پھیرنے والے بیانات کیوں دئیے جا رہے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت کپتان کے وکیل لطیف کھوسہ کے بیان سے بھی ہوتا ہے جو انہوں نے گزشتہ روز دیا کہ میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں اس معاملے کی وضاحت علیمہ خان ہی کر سکتی ہیں حالانکہ انہیں خوش ہونا چاہیے تھا کہ اب وہ امریکی عدالتوں میں جا کر بھی اپنے جوہر دکھا سکتے ہیں۔ پاکستانی عدالتوں پر تو پریس کانفرنسوں میں خوب گرجتے برستے ہیں۔ وہاں شاید یہ پریکٹس نہیں چلے گی۔ جبھی تو وہ کہہ رہے ہیں مجھے ایسا کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کو اندرون خانہ بھی اس معاملے میں اختلافات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس وقت امریکہ و یورپ کو ملا کر کپتان کی رہائی باتیں کی جا رہی ہیں تو ایسے بیانات دے کر انہیں ناراض کر کے راہ کیوں کھوٹی کی جائے۔
بلالائسنس گاڑیاں چلانے والوں کو گرفتار کیا جائے۔ لاہور ہائی کورٹ
اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بلالائسنس سڑکوں پر گاڑیاں چلانے والے کم عمر نوجوان اور نشئی و اناڑی ڈرائیور حقیقت میں موت کے ہرکارے ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ سالانہ لاکھوں افراد ہلاک اور معذور ہو جاتے ہیں۔ اب عدالت نے نہایت سختی سے پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے افراد کو سڑک پر ہی پکڑ کر حوالات کی راہ دکھائے جو بلالائسنس گاڑی، موٹر سائیکل ، ویگن، رکشے ،چنگ چی اور بسیں چلاتے ہیں۔ گزشتہ روز پولیس افسر نے عدالت کو بتایا کہ اب تک 999 مقدمات درج ہو چکے ہیں مگر بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی اصل بات یہ ہے کہ عدالتی حکم کے مطابق ایسے افراد کو فوری پکڑ کر حوالات کی سیر کرائی جاتی تاکہ باقی افراد میں بھی خوف پیدا ہو اور وہ سڑکوں پر قتل عام سے باز رہیں۔
پولیس حکام کے مطابق اس وقت لاہور میں 37 لاکھ گاڑیاں چلتی ہیں جن میں سے صرف 13 لاکھ لائسنس والے چلاتے ہیں۔ باقی سب بندر کی دم پر آگ لگا کر تباہی پھیلانے کی واردات میں مصروف ہیں۔ اب اگر قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مل کر حرکت میں آئیں تو سڑکوں پر ٹریفک کی حالت بہتر اور حادثات کی شرح کم ہو سکتی ہے۔ صرف لائسنس رکھنے والے ہی گاڑی چلا پائیں گے۔ مگر فی الحال دور دور تک ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ کیونکہ ہمارے ہاں ایسے اچھے کاموں پر عمل درآمد کم ہوتا ہے۔