وزارت دفاع اور نگران وفاقی، خیبر پختونخوا اور بلوچستان حکومتوں نے عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات نہ چلانے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل عثمان منصور نے انٹرا کورٹ اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کا عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور اپیل پر فیصلے تک 5 رکنی بینچ کے فیصلے پر حکم امتناعی دیا جائے۔ ملٹری کورٹس کیس میں بنایا گیا بینچ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت نہیں تھا، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا قیام قانون کے مطابق نہ ہونے سے فیصلہ بھی غیر مو¿ثر ہے۔ حکومت واضح کرتی ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں قید تمام افراد کا ملٹری ٹرائل نہیں چاہتے، ملٹری ٹرائل صرف ان افراد کا ہوگا جن پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات لگائی ہیں، فوجی عدالتیں 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے لیے خصوصی طور پر قائم نہیں کی گئیں، فوجی عدالتیں ان افراد کا ٹرائل کریں گی جو فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے میں ملوث تھے۔ وزارت دفاع کی انٹرا کورٹ اپیل میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جن درخواستوں پر فیصلہ دیا وہ ناقابل سماعت تھیں، آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات کالعدم ہونے سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا اختیار تو ہے لیکن اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ جن حکومتوں نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہے وہ خود مستقل اور عوامی حکومتیں نہیں ہیں بلکہ انھیں صرف عام انتخابات کرانے کی غرض سے قائم کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ کسی درخواست کے قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ عدالت خود کرتی ہے، وزارتِ دفاع سمیت کوئی بھی محکمہ کسی عدالت کو یہ نہیں بتا سکتا کہ اس نے جس درخواست پر فیصلہ سنایا ہے وہ قابلِ سماعت تھی یا نہیں۔ خیر، اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، اس لیے عدالت کے باہر کسی قسم کے پراپیگنڈے سے گریز کیا جانا چاہیے اور فریقین ٹھوس بنیادوں پر سپریم کورٹ کے روبرو اپنے کیس کی وکالت کریں۔