
پاکستان میں مہنگائی ایک ایسا مستقل مسئلہ ہے جس کا حل فراہم کرنے میں کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہو پائی۔ اس حوالے سے گزشتہ پانچ برس تو بہت ہی افسوس ناک رہے کیونکہ اس دوران پہلے پونے چار برس پاکستان تحریک انصاف اور پھر سولہ مہینے پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کی حکومتوں نے مہنگائی کے گھوڑے کو بے لگام چھوڑ رکھا تھا۔ اس وقت جو حالات ہیں انھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ نگران حکومت بھی مذکورہ دو حکومتوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی ادارہ¿ شماریات کی رپورٹ قابلِ غور ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے مہنگائی 9.95 فیصد اضافہ کے ساتھ 41.9 فیصد کی بلند سطح پر پہنچ گئی۔ ادارہ¿ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق، ایک ہفتے کے دوران 25 اشیاءمہنگی ہوئیں جبکہ 13 کی قیمتوں میں کمی ہوئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے میں قدرتی گیس 480 فیصد، آٹا264 فیصد، چائے 8.88 فیصد، دال مسور 5.28 فیصد، زندہ مرغی 3.99 فیصد، لہسن 3.09فیصد، نمک 2.93فیصد، ایل پی جی2.03 فیصداور آلو 2 فیصد مہنگے ہوئے۔ حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات مہنگائی میں بڑے پیمانے پر اضافے کی صورت ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر وہ طبقہ ہوا جس کی ماہانہ آمدن تیس ہزار روپے سے کم ہے۔ اس طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح 45.84 فیصد رہی۔ اس وقت مہنگائی ہی عوام کا اصل مسئلہ ہے اور عوام کی طرف سے مختلف اوقات میں سامنے آنے والے شدید ردعمل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اب مہنگائی کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہے، لہٰذا وہ ایسے حکومتی فیصلوں کے خلاف احتجاج کریں گے جن کے ذریعے ضروری اشیاءکی قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں۔ پٹرول، بجلی اور گیس جیسی اشیاءکی قیمتوں میں اضافے سے دیگر اشیاءکی قیمتوں بھی متاثر ہوتی ہیں، لہٰذا اگر حکومت بجلی گیس کے نرخ بڑھاتی رہے گی تو دیگر اشیاءبھی بتدریج مہنگی ہوتی جائیں گی۔ حکومت کو بڑھتے عوامی مسائل کا ادراک ہونا چاہیے کیونکہ اگر معاملات کو اس سطح پر نہ سدھارا گیا تو عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سول نافرمانی پر اتر آئیں گے جس کا ملک ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا۔