حسنِ تربیت کے ثمرات
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے فیضان صحبت نے عوام وخواص کے کردار وعمل میں جو انقلاب پیدا کیا، اسکی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے ،تاریخ فیروزشاہی کے مصنف ضیاء الدین برنی لکھتے ہیں۔
’’شیخ کے آستانے پر حاضر ہونے والے نئے لوگ شیخ کے پرانے مریدوں سے پوچھتے رات کے وقت شیخ کتنی رکعتیں پڑھتے ہیں۔ ہر رکعت میں کیاپڑھتے ہیں۔ عشاء کی نماز کے بعد حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پاک پر کتنی مرتبہ درودپڑھتے ہیں۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی اور حضرت فریدالدین گنج شکرکتنی بار درود بھیجتے تھے، کتنی بار سورہ اخلاص پڑھتے تھے۔ شیخ کے نئے مرید قدیم مریدوں سے اسی قسم کے سوالات پوچھتے ، روزوں ،نفلوں اورقلت غذا کے بارے میں معلوم کرتے تھے۔ اس عہد خیر میں لوگ کثرت سے قرآن مجید حفظ کرنے کا اہتمام کرنے لگے تھے۔ نئے مرید پرانے کی صحبت میں اٹھتے بیٹھتے ،پرانے مرید بندگی اورعبادت میں مصروف رہتے، ترک وتجرید پر عمل کرتے ۔سلوک کی کتابیں پڑھتے، مشائخ اور بزرگوں کے حالات وواقعات کے ذکر میں ہمہ وقت معروف رہتے تھے۔ دنیا اوردنیا داروں کا ذکر بھولے سے بھی اپنی زبان پر نہ لاتے۔ دنیا کی طرف آنکھ پھیر کر دیکھتے بھی نہیں تھے۔ ایسی باتیں معیوب بلکہ گناہ شمار ہوتی تھیں۔ اس بابرکت زمانے میں سلطانی دربار سے منسلک امرائ، عہدیدار، محرر، لشکری اورشاہی غلاموں میں سے بہت سے لوگ شیخ کے ارادت مندوں میں تھے۔ یہ سب کثرت سے نفل ادا کرتے ، چاشت اوراشراق کی نماز پڑھتے، ایام بیض اورعشرہ ذی الحجہ کے روزے رکھتے۔ شہر کا کوئی محلہ ایسا نہیں تھا، جہاں مہینے میں بیس دن کے بعد نیک لوگوں کی مجلس نہ ہوتی ہو،اس مجلس میں لوگوں پر گریہ اوررقت طاری ہوتی۔ شیخ کے بعض مرید ایسے بھی تھے۔ جو مسجدوں اورگھروں میں نماز تراویح میں ختم قرآن کراتے۔ رمضان، جمعہ اور ایام تشریق میں رات رات بھر نماز یں پڑھتے۔ صبح تک بیدار رہتے ۔پلک نہ جھپکاتے ۔ بعض ایسے بھی تھی جو ساراسال راتوں کا بڑا حصہ نماز میں گزار دیتے۔ بعض عبادت گزار عشاکے وضو سے فجر کی نماز اداکرتے تھے۔ (ضیاء الدین برنی کہتے ہیں )میں شیخ کے بعض ایسے مریدوں سے بھی واقف ہوں جو شیخ کی صحبت اور توجہ کی وجہ سے صاحب کشف و کرامات ہوگئے تھے۔ (تاریخ فیروز شاہی۔ بحوالہ دبستانِ نظام)
کوئی اندازاکرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیر یں