امید ہے گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج کے بعد حکومت آزاد کشمیر کی آنکھیں بھی کھل گئی ہوں گی۔ 4 برس سے وہ جتنی عیاشی کرتی رہی کر چکے۔ اب بھی اگر انہوں نے ہنگامی طور پر اپنے لچھن نہ بدلے تو چند ماہ بعد وہ بھی سڑکوں پر ویسے ہی دہائی دیتی نظر آئے گی۔ جیسے اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) والے گلگت بلتستان میں ہارنے کے بعدواویلا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر کارکردگی کے ترازو میںتولا جائے تو آزادکشمیر حکومت کے پلڑے میں شاید ہی کوئی ایسا کارنامہ ہو جسے ہم کہہ سکیں کہ وہ اس کی تمام کوتاہیوںپر بھاری ہے۔ اقربا پروری سیاسی جوڑ توڑ ، کرپشن ، عہدو ں کی بندربانٹ کا بازار گرم رہا مگر راوی سب اچھا لکھتا رہا۔ وزرا کی فوج ان کی لش پش کرتی قیمتی گاڑیاں ، سیر سپاٹے دیکھ کر عوام کا خون جلتا رہا۔ اب وقت بہت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے۔ آزاد کشمیر کے حکمران بخوبی جانتے ہیں کہ ان کا مقابلہ صرف سیاسی جماعت سے نہیں ایک پورے سیٹ اپ سے ہوتا ہے۔ اسلام آباد سے مظفر آباد تک اس طبقہ کی مار یکساں ہے۔ ویسے بھی جو مرکز میںحکومت کرتا ہے وہی آزاد کشمیر میںحکومت بناتا ہے۔ یہ کوئی الجبرے کا لاینحل مسئلہ نہیںکہ سمجھ میں نہ آتا ہو۔ یہ ایک حقیقت ہے اور گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ اس وقت اگر بات صرف آزاد کشمیر کی ہوتی تو وہاں کے راجے ، چودھری ، سردار اور دیگر برادریاں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ توڑ کے لیے پنجہ آزمائی کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کا فن بخوبی جانتی ہیں۔ یہ انتخابی دائو پیچ ان کے لیے نئے نہیں۔ مگر پلڑا اسی کا بھاری رہتا ہے جس کے سر پر حکومتی ہاتھ ہو۔پولنگ سٹیشنوں پر انہی کا راج ہوتا ہے جس کے ساتھ پولیس ہو۔ باقی سب جانتے ہیں کہ یہ دونوں کس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اس وقت پی پی پی ، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی میں جو مقابلہ ہو گا وہ قابل دید ہو گا۔ اگر مسلم لیگ (ن) کے حکمرانوں نے اور پی پی والوں نے شیخ رشید کی بات پر کان نہ دھرا اور انفرادی کھیل کھیلنے کی کوشش کی تو آزاد کشمیر میں گلگت بلتستان والی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے انہیں تیار رہنا ہو گا۔ آزاد کشمیر اسمبلی میں 12 نشستیں وادی جموں و کشمیر بشمول لداخ کے مہاجرین کی بھی ہیں۔ ان میں سے 6 آزاد کشمیر کے باشندگان جو پاکستان میںبسلسلہ روزگار موجود ہیں یا رہائش پذیر ہیں وہ بھی جموں و دیگر کے نام ووٹ ڈالتے ہیں۔ یہاں ذات برادری کا وہی زور ہوتا ہے جو آزاد کشمیر میں ہے۔اس کے برعکس جو 6 سیٹیں مہاجرین کشمیر کی ہیں وہ سراسر لاوارث ہیں۔ ان پر حکومت وقت آسانی سے دھاوا بول کر کامیاب ہوتی ہے۔ اس لیے انہیں بھی مرکزی حکومت کے تابع شمار کیا جاتا ہے جو سچ بھی ہے۔
اب دیکھنا ہے پی ڈی ایم والے گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج سے کیا سبق حاصل کرتے ہیں۔ اس وقت آزاد و کشمیر الیکشن کمشنر نے کشمیری ووٹروں کے اندراج کے لیے شیڈول جاری کر دیا ہے۔ گویا الیکشن کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اب دیکھنا ہے۔ کتنے کشمیری اس آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ لاہور ویلی کی نشست پر ایک بار پھر پی ٹی آئی کے رہنما غلام محی الدین دیوان اور مسلم لیگ (ن) کے غلام عباس میر کے درمیان مقابلہ ہو گا۔ گزشتہ دو الیکشن میں غلام محی الدین دیوان کامیاب رہے ہیں۔ اب دیکھنا ہے مسلم لیگ (ن) جو لاہور کو اپنا قلعہ کہتی ہے اپنے امیدوار کے لیے کیا کرتی ہے۔ مرکز اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو آزاد کشمیر الیکشن کی فکر نہیں ہوتی جس کا نتیجہ وہ بھگتتی آ رہی ہے۔ اسی طرح کوئٹہ کراچی ویلی کی سیٹ پر جو گزشتہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ہاتھ آئی تھی وہاں ایک بار پھر لون صاحب کا مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) سے ہو گا۔ اگر تحریک انصاف والے مضبوط امیدوار لائے تو پھر مقابلہ سخت ہو گا۔ کراچی میں جوڑ برابر کا ہو سکتا ہے۔ اس مقابلے میں کوئٹہ کے ووٹر فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کو کون متاثر کرتا ہے۔ جس نے ان کے دل لبھائے وہ آسانی سے کامیاب ہو سکتا ہے۔ رہی بات راولپنڈی ، ملتان ، پشاور کی تو وہاں کی جیت ہمیشہ صاحب اقتدار حکمران جماعت کے حصے میں آتی ہے۔ بس ذرا ووٹرز کا جوش و خروش دیکھنے کو ملتا ہے ورنہ سرکاری پارٹی کے سامنے کس کی مجال کہ کامیابی کا سہرا اپنے سر سجانے کے خواب دیکھے۔ اس حساب سے آزاد کشمیر کی آئندہ حکومت پی ٹی آئی کے حصے میںآتی دکھائی دیتی ہے۔ تاہم ابھی اس خواب کے حقیقت بننے میں کچھ وقت باقی ہے…
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024